پاکستان کے جس بحران کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اُس سے ایک نیا بحران جنم لیتا ہے۔ شہری ہوا بازی کے نگران ادارے نے خبر دی ہے کہ پاکستان انٹرنیشنل ائرلائن میں کام کرنے والے درجنوں پائلٹ ایسے ہیں جن کے پاس پیشہ ورانہ تربیت مکمل کرنے کی جعلی اسناد (لائسنس) ہیں اور ابھی یہ خبر پرانی نہیں ہوئی بلکہ اِس میں ہر چند دنوں بعد نئی تفصیلات کا اضافہ ہو جاتا ہے چونکہ دنیا کے مختلف ہوابازی سے متعلق ادارے اور اس کے ساتھ ساتھ کئی غیر ملکی ائر لائنز کمپنیوں نے پاکستان کے پائلٹوں کو ملازمت پر رکھا ہوا تھا‘ اس لئے انہوں نے سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) سے خط و کتابت کا آغاز کرتے ہوئے سوالوں کی بھرمار کردی‘ جن میں پائلٹوں کے لائسنس یا پرواز کی صلاحیت سے متعلق سوالات سرِفہرست تھے۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ یہ معاملہ اب یکسر طور پر ایک نیا رخ اختیار کرچکا ہے۔ عمان سول ایوی ایشن اتھارٹی نے دو جولائی کو بھیجے گئے اپنے خط میں شہری ہوا بازی کے نگران ادارے (سی اے اے) کی جانب سے جاری کردہ اسناد پر سوال اٹھایا۔ ’سی اے اے‘ نے خط کے جواب میں کہا کہ ’یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ ’سی اے اے‘ کے جاری کردہ پائلٹ لائسنس اصلی ہیں اور انہیں قانونی تقاضوں کے مطابق جاری کیا گیا ہے۔ کسی بھی پائلٹ کا لائسنس جعلی نہیں ہے دراصل معاملے کا غلط مطلب نکالا گیا ہے اور ذرائع ابلاغ یا سوشل میڈیا میں اسے غلط انداز میں پیش کیا گیا۔ وزیر ہوابازی سے متعلق امور کے وفاقی وزیر نے پارلیمنٹ سے اپنے خطاب کے دوران کم از کم تین مواقع پر یعنی دو بار انگریزی اور ایک بار اردو میں لفظ ’جعلی‘ کا لفظ استعمال کیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ایسے کئی پائلٹوں کو سیاسی دباو¿ کے تحت بھرتی کیا گیا تھا۔ یہ تقریر عام دستیاب ہے۔
جعلی لائسنسوں کے حوالے سے مباحثہ تقریر کے پینتیس منٹ کے بعد شروع ہوا جب انہوں نے کہا تھا کہ فروری 2019ءسے پائلٹ لائسنسوں کے معاملے کی تفتیش جاری ہے اور اس دوران ایسے بہت سے جعلی لائسنسوں کا پتا لگایا گیا ہے۔ اِس کے 2 دن بعد انہوں نے پریس کانفرنس طلب کی اور الزام دہراتے ہوئے تفصیلی جواز پیش کیا کہ جو پائلٹ جعلی لائسنس رکھتے ہیں ان کے نام ظاہر کرنا کیوں ضروری ہوگیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض اوقات کسی مرض کے علاج کے لئے کیموتھراپی (تکلیف دہ مراحل سے گزرنا) لازمی ہوجاتا ہے۔ دنیا کے مختلف ہوابازی کے ادارے سی سی اے سے پاکستانی پائلٹس کے اجازت ناموں (لائسنسوں) کے معیار کے بارے میں سوال پوچھے جا رہے ہیں تو یہ ادارہ کس طرح اس کا ذمہ دار میڈیا کو ٹھہرا سکتا ہے؟ عمانی حکام کو جواب بھیجا گیا ہے کیا وزیر موصوف نے اس خصوصی جواب کی منظوری دی تھی؟ کیونکہ وہ تو پارلیمنٹ اور عوام کو یہ بتا رہے ہیں کہ پاکستان کے شعبہ ہوابازی کے مسائل اس قدر بگڑ گئے ہیں کہ جنہیں ٹھیک کرنے کے لئے انہیں کیمو تھراپی کرنی پڑ گئی ہے لیکن حیرانی کہ وہ عین اسی لمحے دنیا کے مختلف ممالک میں اپنے ہم منصبوں کو مڑ کر کہتے ہیں کہ جی کسی بھی پائلٹ کا لائسنس جعلی نہیں ہے اور میڈیا نے معاملے کا غلط مطلب نکال لیا اور غیر مناسب انداز سے پیش کیا۔ راقم الحروف کو وہ وقت بھی یاد ہے جب وزیرِاعظم عمران خان ایسا کہا کرتے تھے کہ جب کہیں کوئی فضائی یا کسی بھی قسم کا کوئی حادثہ پیش آئے تو متعلقہ وزیر کو اس کی ذمہ داری قبول کرنی چاہئے۔ آپ کو وہ دنیا بھر کی مثالیں یاد ہیں جو انہوں نے اپنا کیس مضبوط کرنے کے لئے پیش کی تھیں؟ ان کا مو¿قف تھا کہ اگر کسی وزیر کی نگرانی میں کوئی فضائی حادثہ پیش آئے تو اسے عہدہ چھوڑ دینا چاہئے۔
انہوں نے اس کی ایک وجہ یہ بیان کی تھی کہ جس وزیر کے دور میں کوئی حادثہ پیش آئے تو وہ وزیر کبھی بھی ان حقائق کو منظر عام پر آنے نہیں دے گا جو ان میں قائدانہ صلاحیتوں اور اہلیت کی کمی ظاہر کرتے ہوں۔ عہدہ سنبھالنے کے بعد وزیرِاعظم عمران خان نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں کہا تھا کہ ان کے ویژن کے مطابق پاکستان میں اصلاحات لانے کا سفر ایف بی آر سے شروع ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک ملک جہاں بیس کروڑ میں سے صرف آٹھ لاکھ افراد ٹیکس ادا کرتے ہوں وہ زیادہ وقت اپنے معاملات خود نہیں چلا سکے گا۔ بعدازاں انہوں نے بتایا کہ کس طرح اس ملک میں امرا¿ ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’میرا آپ سے وعدہ ہے کہ سب سے پہلے ہم ایف بی آر کو ٹھیک کرینگے اس کام کو انجام دینے کے لئے ایف بی آر کی خود مختاری بڑھانے اور اس پر وزارتِ خزانہ کا اثر و رسوخف گھٹانے کا وعدہ کیا گیا۔ اور آج ہم ایک ایسے موڑ پر کھڑے ہیں جہاں نہ صرف ایف بی آر میں اصلاحات کے حوالے سے کوئی پلان موجود نہیں ہے بلکہ موجودہ سال کی آمدنی (ریوینیو) اہداف حاصل کرنے کے لئے بھی کوئی ٹیکس پلان دستیاب نہیں ہے اس سے ہم صرف یہی نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ دو برس بعد تحریک انصاف وہیں کھڑی ہے جہاں سے اِس نے اپنے اقتدار کا آغاز کیا تھا۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: خرم حسین۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)