شہابِ ثاقب: پاکستانی سرزمین پر گذشتہ ڈیڑھ صدی کے دوران گرنے والے 17 شہابیوں کی تاریخ

عالمی تنظیم میٹیوریٹیکل سوسائٹی کی جانب سے جاری کیے جانے والے ڈیٹابیس کے مطابق 18 ویں صدی سے 2020 تک کُل 17 شہابِ ثاقب پاکستان کے مختلف علاقوں خصوصاً صوبہ پنجاب اور سندھ میں گرے ہیں

شہاب ثاقب یا میٹیورائٹ دراصل سیارچوں (ایسٹیرائڈز) یا دم دار ستاروں (کومیٹ) سے خارج ہونے والے ٹھوس پتھر ہوتے ہیں جو کرۂ ارض کا احاطہ کرنے والی فضا سے گزر کر سطحِ زمین تک پہنچتے ہیں۔

اس دوران ہوا کے ساتھ رگڑ، دباؤ یا کیمیائی تعامل کے باعث ان میں آگ بھڑک اٹھتی ہے جس کے نتیجے میں ان سے توانائی کا اخراج ہوتا ہے اور یہ شہابیے یا محض آگ کے گولوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں، جنھیں ٹوٹتے تارے بھی کہا جاتا ہے۔

اکثر اوقات یہ اس شدید حدت اور رگڑ کی وجہ سے ہوا میں ہی ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں تاہم کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی شہاب ثاقب زمین پر آ گرے۔

اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے کئی خلائی پتھر پاکستان میں بھی گر چکے ہیں جن میں سے کچھ تو پاکستان میں اب بھی موجود ہیں لیکن کچھ اب یہاں سے باہر لے جائے جا چکے ہیں۔

پاکستان میں شہابِ ثاقب گرنے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ عالمی تنظیم میٹیوریٹیکل سوسائٹی کی جانب سے جاری کیے جانے والے ڈیٹابیس کے مطابق 18 ویں صدی سے سنہ 2020 تک کُل 17 شہابِ ثاقب پاکستان کے مختلف علاقوں خصوصاً صوبہ پنجاب اور سندھ میں گرے ہیں۔

ان میں سے بلوچستان کے علاقے ژوب میں گرنے والے صرف ایک ’ژوب میٹیورائٹ‘ کی ہی باقاعدہ تصدیق اور تجزیہ ہو سکا ہے۔ گلگت بلتستان اور پنجاب کے ضلع بھکر میں بھی شہاب ثاقب گرے جن کی خبریں تو میڈیا کی زینت بنیں مگر ان کے بارے میں کچھ معلومات دستیاب نہیں ہیں اور نا ہی اب تک انھیں میٹیوریٹیکل ڈیٹابیس میں درج کیا گیا ہے۔

 

نظام شمسی میں مریخ اور مشتری کے درمیان ایسٹیرائڈز یا سیارچوں کی ایک مکمل آبادی ہے جسے ’ایسٹیرائڈ بیلٹ‘ کہا جاتا ہے۔

ماہرین فلکی حیاتیات کے مطابق یہ شہابیے مائیکرو میٹر سے لے کر بڑے حجم کے چٹانی پتھروں جتنے ہو سکتے ہیں اور یہ مختلف طرح کی دھاتوں، نمکیات اور نامیاتی و غیر نامیاتی مرکبات کا مجموعہ ہوتے ہیں۔

آسمان سے جانب سے زمین کی طرف آنے والے شہابیوں پر تحقیق سے سائنسدانوں نے بہت سے چونکا دینے والے انکشافات کیے ہیں۔

یہ شہاب ثاقب نہ صرف ارضیات (جیولوجی) میں تحقیق میں معاون ثابت ہوئے ہیں بلکہ زمین پر زندگی کی ابتدا اور ارتقا کو سمجھنے کے علاوہ ان پر تحقیق سے ہمارے نظامِ شمسی کے وجود میں آنے اور دیگر سیاروں کی کیمیائی ساخت کے بارے میں اہم معلومات بھی حاصل ہوئی ہیں۔

نومبر 2019 میں ناسا گوڈارڈ سپیس فلائٹ سینٹر اور توہوکو یونیورسٹی جاپان نے تین شہابِ ثاقب پر تحقیق کی جس سے معلوم ہوا کہ ان میں شکر (شوگر) کے مالیکیولز موجود تھے جبکہ اس سے پہلے زندگی کے لیے لازمی نامیاتی اجزا امائنو ایسڈ اور نیوکلیوبیسز بھی شہاب ثاقب میں دریافت ہو چکے ہیں۔

پاکستان میں خلائی پتھر کب کب گرے؟

18 ویں صدی

میٹیوریٹیکل ڈیٹابیس کے مطابق 18 ویں صدی میں برطانوی راج (1858-1947) کے دوران پنجاب اور سندھ کے علاقوں میں شہاب ثاقب گرنے کے چار واقعات ہوئے، جن میں لودھراں (سنہ 1868)، خیرپور ٹامیوالی میں سنہ 1873 میں، جھنگ اور سندھ کے علاقے گمبٹ میں سنہ 1897 میں۔

خیرپور میٹیورائٹ

18ویں صدی میں ریکارڈ ہونے والے چار شہاب ثاقب میں سے صرف خیرپور میٹیورائٹ کی معلومات دستیاب ہیں جن کے مطابق 23 ستمبر 1873 کو پنجاب کے علاقے خیرپور ٹامیوالی کے دیہی علاقے میں زور دار دھماکوں سے ساتھ چند شہاب ثاقب گرے جن سے پانچ سے 25 کلومیٹر کے علاقے میں گہرے گڑھے پڑ گئے تھے۔

ان میں سے بڑے پتھر پر ہونے والی تحقیق کے مطابق یہ اینسٹاٹائٹ کونڈرائٹ قسم کا میٹیورائٹ تھا جو اہم معدنیات اینسٹا ٹائٹ، آئرن اور سیلیکیٹ کا مرکب ہوتے ہیں۔ یہ معدنی مرکب زمین پر پائی جانے والی چٹانوں میں ندارد ہے، لہٰذا اس طرح کے شہابِ ثاقب ہر دور میں ماہرینِ فلکی حیاتیات کی خصوصی توجہ کا مرکز رہے ہیں، جن سے انھیں نظامِ شمسی اور اس سے باہر سیاروں کی کیمیائی ساخت کو سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے۔

19 ویں صدی

میٹیوریٹیکل ڈیٹا بیس کے مطابق 19 ویں صدی میں پاکستان میں شہابِ ثاقب گرنے کے 10 واقعات ہوئے۔

ان میں سنہ 1901 میں سندھڑی (سندھ)، سنہ 1905 میں کرخ (بلوچستان)، سنہ 1915 میں وسونی (سندھ)، سنہ 1917 میں گڑھی یاسین (سندھ)، سنہ 1926 میں کوٹ لالو (سندھ)، سنہ 1936 میں آروندو (خیبر پختونخوا)، سنہ 1948 میں مردان (خیبر پختونخوا)، سنہ 1950 میں تھال (خیبر پختونخوا)، سنہ 1955 میں کرلو والا (پنجاب)، سنہ 1961 میں کولاک (بلوچستان)، سنہ 1968 میں لودھراں (پنجاب)، اور سنہ 1983 میں رحیم یار خان (پنجاب) شامل ہیں۔

ادھی کوٹ میٹیورائٹ

19 ویں صدی میں ریکارڈ ہونے والے 10 واقعات میں سے صرف ایک ادھی کوٹ میٹیورائٹ کی تفصیلات ہی دستیاب ہیں جن کے مطابق یکم مئی 1919 کو صوبہ پنجاب کے علاقے نور پور سے 24 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک شہابِ ثاقب گرا۔ اس علاقے کو برطانوی راج میں شاہ پور بھی کہا جاتا تھا۔

اس پتھر کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ یہ سنہ 1873 میں خیر پور ٹامیوالی میں گرنے والے شہابیے سے مماثلت رکھتا ہے، لہٰذا اسے اینسٹاٹائٹ (EH4) کا نام دیا گیا۔ بعد ازاں اس پتھر پر تحقیق کر کے ایک مقالہ شائع کیا گیا جس کے مطابق اس میں کلورین اور ہیفنیئم کی مقدار دیگر عناصر سلیکون، کیلشیئم اور آئرن کی نسبت زیادہ تھی۔

اس سے یہ نتیجہ نکالا گیا یہ کائنات میں موجود گیس اور مٹی کے انتہائی بلند درجہ حرارت والے کسی بادل (سولر نیبیولا) کے ٹھنڈے ہو جانے والے ٹکڑے ہیں۔

21 ویں صدی

میٹیوریٹیکل ڈیٹا بیس کے مطابق موجودہ صدی میں پاکستان میں شہابِ ثاقب گرنے کے محض دو واقعات، سنہ 2012 میں لاڈکی (سندھ) اور سنہ 2020 ژوب (بلوچستان)، میں ہی ہوئے ہیں۔

میڈیا اطلاعات کے مطابق سنہ 2017 میں گلگت اور سنہ 2018 میں بھکر (پنجاب) میں ایسے دو واقعات ہوئے تھے جنھیں میڈیا نے نمایاں بھی کیا مگر بعد ازاں یہ پتھر پراسرار طور پر غائب کر دیے گئے۔

18 اگست 2018 کو بھکر کی تحصیل دریا خان میں پنج گیریاں کے مقام پر کچھ شہاب ثاقب گرے جن میں سے ایک پتھر کا وزن تین سے چار کلوگرام تک تھا۔ مقامی افراد ان پتھروں کی حقیقت نہیں جان سکے اور کسی بم دھماکے سے اڑ کر آنے والے پتھر سمجھ کر جمع کر لیا اور مقامی پولیس اور میڈیا کو آگاہ کیا۔

اس واقعے کی رپورٹ کرنے والے ایکسپریس نیوز کے رپورٹر ندیم ناز کے مطابق انھیں اسی رات ڈی ایس پی دریا خان رانا نصیر نے پولیس سٹیشن طلب کیا اور اسسٹنٹ کمشنر طلحہ سعید اور دیگر سینیئر عہدیداروں کی موجودگی میں انھوں نے یہ پتھر ڈی ایس پی کے حوالے کیا۔

انھیں بتایا گیا کہ اب اسے مزید تجزیے کے لیے پنجاب فورینزک سائنس ایجنسی بھیجا جائے گا اور بعد ازاں پنجاب یونیورسٹی کے جیولوجی ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کر دیا جائے گا۔

پنجاب یونیورسٹی جیولوجی ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شاہد جمیل سمینی کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ جس دن ہوا، اس کے کچھ دن بعد عید تھی۔ ’اسسٹنٹ کمشنر طلحہ سعید نے مجھے مطلع کیا کہ ابھی پتھر نیشنل فورینزک سائنس ایجنسی بھیجا جا رہا ہے اور عید کے بعد ہمارے حوالے کر دیا جائے گا، مگر دو سال کے طویل انتظار اور بارہا رابطوں کے باوجود ہمیں پتھر موصول نہیں ہوا۔‘

انھوں نے کہا کہ پنجاب یونیورسٹی کے میوزیم میں اس سے پہلے گرنے والے دو شہاب ثاقب موجود ہیں اور ان کا ارادہ تھا کہ تحقیق کے بعد اس پتھر کو بھی میوزیم میں رکھا جائے گا۔ اس دوران سنہ 2019 میں سپارکو سے ایک خاتون نے رابطہ کر کے پتھر کی ملکیت کا دعویٰ کیا مگر چونکہ پتھر ہمیں موصول ہی نہیں ہوا، سو ہم نے انھیں متعلقہ حکام سے رابطے کرنے کو کہا۔

اس واقعے کے تیسرے مبینہ فریق نیشنل فورینزک سائنس ایجنسی اسلام آباد کے ایک سینیئر عہدیدار کے مطابق بھکر میٹیورائٹ ان کے ادارے میں نہیں بھیجا گیا۔ دوسری جانب پنجاب فورینزک سائنس ایجنسی اس پر کوئی بھی بیان دینے کو تیار نہیں۔

قومی میڈیا میں پتھر کی پراسرار گمشدگی پر متعدد رپورٹس شائع ہوئیں اور نوجوان سائنسدان شہیر نیازی کی جانب سے اس پر سوشل میڈیا مہم چلائے جانے اور وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری کی توجہ ان واقعات کی طرف مبذول کروانے کے باوجود اب تک حکومتِ پنجاب، وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی یا سپارکو کی جانب سے اس پر کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔

مارچ 2017 میں گلگت بلتستان میں ضلع غذر اور دیامر کے اطراف میں رات نو بجے کے قریب کچھ چمکتے ہوئے اجسام آسمان پر دیکھے گئے اور کچھ دیر بعد ایک زور دار دھماکے کے ساتھ چند پتھر گرے۔ اس علاقے کے رہائشی جاوید اقبال کے مطابق دھماکہ اس قدر زوردار تھا کہ پوری وادی لرز اٹھی اور چند ہی گھنٹوں میں اس واقعے کی خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی۔

اگلے روز ڈان اخبار سمیت دیگر اخبارات میں اس کی خبر بھی شائع ہوئی اور سوشل میڈیا پر اس واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی شیئر کی گئی تاہم غذر اور دیامیر کے درمیان اونچی پہاڑی چوٹیوں میں گرنے کے باعث یہ شہابِ ثاقب آج تک تلاش نہیں کیا جا سکا۔

 

ژوب میٹیورائٹ

نو جنوری 2020 کی شام کو بلوچستان کے علاقے ژوب میں زوردار دھماکوں کے ساتھ تقریباً 18.9 کلوگرام جسامت کا ایک بڑا شہابِ ثاقب اور ساتھ بہت سے چھوٹے پتھر گرے جنھیں مقامی افراد نے اپنی تحویل میں لے لیا۔

ژوب کی تحصیل قمر الدین کاریز سے تعلق رکھنے والے سردار نور محمد کے مطابق اس واقعے کے بعد کوئٹہ سے کچھ لوگوں نے اس مقام کا دورہ کیا اور ہم سے تمام پتھر یہ کہہ کر لے گئے کہ انھیں مزید تحقیق کے لیے اسلام آباد لے جایا جائے گا، مگر درحقیقت ان میں 19 کلوگرام کے پتھر کو مبینہ طور پر افغانستان کے راستے چار لاکھ روپے کے عوض سمگل کر دیا گیا۔

وہاں سے اسے مائیکل فارمر نامی ایک میٹیورائٹ اور دیگر قیمتی پتھروں کے تاجر نے خرید کر فروری 2020 میں ہونے والے ٹکسن منرل اینڈ جیمز شو میں فروخت کے لیے پیش کیا۔

مائیکل فارمر کے مطابق انھیں پاکستان سے کال موصول ہوئی تھی کہ ایک وزنی شہابِ ثاقب پاکستان سے امریکہ سمگل کیا جا رہا ہے جس کے بعد اس کے حصول کے لیے انھوں نے ایک تیسرے فریق کی خدمات حاصل کیں۔

شو سے امریکہ کی ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی نے یہ پتھر تحقیقی مقاصد کے لیے خریدا اور یونیورسٹی کی جانب سے اس کے متعلق معلومات جاری کیے جانے کے بعد بین الاقوامی میڈیا کو اس شہاب ثاقب کے بارے میں معلوم ہوا، مگر بلوچستان کا مقامی اور قومی میڈیا اس سے بے خبر رہے۔

ایریزونا یونیورسٹی کی جانب سے جاری کی جانے والی معلومات کے مطابق یہ خیر پور اور ادھی کوٹ میٹیورائٹ سے مشابہہ کونڈرائٹ ہی ہے جس میں سلیکون، آئرن اور نکل جیسے عناصر کی بہتات ہے، مگر اس کا تعلق مریخ اور مشتری کے درمیان واقع ایسٹیرائڈ بیلٹ سے ہے، لہٰذا محققین کے لیے یہ انتہائی اہمیت کا حامل پتھر ہے۔

 

ان خلائی پتھروں کا گرنا کوئی نیا واقعہ نہیں ہے۔ ہر برس مائیکرو میٹر سے لے کر بڑی سائز کی چٹانوں تک ایسے تقریباً 15 ہزار ٹن پتھر زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہیں۔

دنیا بھر میں شہابِ ثاقب گرنے کے واقعات ہوتے ہیں مگر دیگر ممالک میں انھیں باقاعدہ ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ اوپن مارکیٹ یا جیمز اینڈ منرل شوز میں ان کی خرید و فروخت بھی عام ہے اور عموماً تحقیقی مقاصد کے لیے ماہرین یا سائنسدان انھیں خریدتے ہیں۔

حکومتِ پاکستان خصوصا وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ناصرف ان واقعات کو درست طریقے سے ریکارڈ کیا جائے بلکہ ان کی فروخت بھی قانونی طریقے سے ہو۔