ڈائنوسار کا شکاری: 3 منزلہ عمارت جتنا ’دہشت گرد‘ مگرمچھ

 مگرمچھ جیسے ایک قدیم و معدوم جانور کے کروڑوں سال پرانے رکازات (فوسلز) کا ایک بار پھر جائزہ لینے کے بعد ماہرین کا کہنا ہے کہ شاید یہ اتنا خطرناک تھا کہ ڈائنوسار تک کا شکار کیا کرتا تھا۔

اس مگرمچھ کی قدیم ترین باقیات 8 کروڑ 20 لاکھ سال پرانی ہیں، جو ظاہر کرتی ہیں کہ ڈائنوسار کے ساتھ یہ بھی موجود تھا۔ اس کے نوک دار دانت بڑے کیلے جتنے لمبے تھے، یہ ڈھائی ٹن سے پانچ ٹن تک وزنی ہوا کرتا تھا جبکہ اس کی لمبائی تقریباً 33 فٹ یعنی ایک عام تین منزلہ عمارت جتنی ہوتی تھی۔


 
اپنی ان ہی خصوصیات کی بنا پر اس قدیم مگرمچھ کو ’’ڈینوسوکس‘‘ (Deinosuchus) یعنی ’’دہشت گرد مگرمچھ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے اوّلین رکاز 1850 کے عشرے میں امریکا سے دریافت ہوئے تھے۔

ڈینوسوکس کو ڈائنوسار کے زمانے میں نیم آبی (سیمی ایکویٹک) ماحول بشمول جوہڑ اور تالاب وغیرہ کے سب سے دیوقامت جانوروں میں شمار کیا جاتا ہے۔

 

اس کی ساخت کو مدنظر رکھتے ہوئے ماہرین کا خیال تھا کہ جدید مگرمچھ کی طرح یہ بھی شکاری جانور تھا، لیکن یہ بات صرف مفروضہ ہی رہی۔

حالیہ تحقیق میں یونیورسٹی آف آیووا کے سائنسدانوں نے ڈینوسوکس قسم سے تعلق رکھنے والے مختلف مگرمچھوں کے رکازات کا ایک بار پھر تفصیل سے جائزہ لیا جبکہ ساتھ ہی ساتھ ان ڈائنوساروں کے رکازات بھی کھنگالے گئے جو ان ہی علاقوں سے دریافت ہوئے تھے اور انہی رکازات جتنے قدیم تھے۔


 
ان ڈائنوساروں کے رکازات میں ٹانگوں اور دموں پر بالکل ویسے ہی نشانات تھے جیسے ڈینوسوکس کے دانت گاڑنے سے بنے ہوں۔ ڈائنوساروں کے جسموں پر مخصوص مقامات پر یہ نشانات دیکھنے اور ان کا موازنہ ڈینوسوکس کے دانتوں سے کرنے کے بعد ماہرین اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ دیوقامت اور قدیم و معدوم مگرمچھ واقعتاً ڈائنوسار کا شکار کیا کرتے تھے۔

 

اس کا ایک ممکنہ منظرنامہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جیسے ہی کوئی ڈائنوسار اس مگرمچھ کے تالاب کے قریب آتا ہوگا، پانی میں چھپا ہوا مگرمچھ فوری طور پر باہر نکل کر اسے دبوچ لیتا ہوگا (جیسا کہ سب سے اوپر والی تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے)۔

نیویارک انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں رکازیات (palaeontology) کے ماہر ایڈم کوسیٹ بھی اس خیال سے متفق ہیں: ’’ڈینوسوکس بہت دیوقامت تھے اور وہ یقیناً کسی تالاب یا جوہڑ کے کنارے پانی پینے آنے والے ڈائنوساروں کےلیے خوف کا باعث بھی رہے ہوں۔‘‘

اس تحقیق کی تفصیلات ’’جرنل آف ورٹیبریٹ پیلیونٹولوجی‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہیں۔