آسٹریلوی اور بنگلا دیشی سائنس دانوں نے مشترکہ طور پر تحقیق کرتے ہوئے ایک ایسی مصنوعی کھال ایجاد کرلی ہے جو درد بھی محسوس کرسکتی ہے۔ امید ہے کہ اسے مستقبل میں ایسے مصنوعی اعضا کی تیاری میں استعمال کیا جاسکے گا جو گرمی، سردی اور دباؤ کے علاوہ درد بھی محسوس کرنے کے قابل ہوں گے۔
میلبورن، آسٹریلیا کی آر ایم آئی ٹی یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی طالب علم عطاء الرحمان اور ان کے ساتھیوں نے کھال سے دماغ تک درد کے احساس کی منتقلی کی نقل کرتے ہوئے یہ جلد تیار کی ہے۔
عام حالات میں ہماری جلد گرمی، سردی اور دباؤ کو معمول کے طور پر محسوس کرتی ہے لیکن جیسے ہی کوئی کیفیت شدید ہوتی ہے، ویسے ہی ہماری کھال کے اعصاب میں خاص طرح کا ہیجان پیدا ہوتا ہے جس کے سگنل ہمارے دماغ تک پہنچ کر درد کے احساس کو جنم دیتے ہیں۔
مثلاً اگر ہمارا ہاتھ تیز گرم سلاخ سے ٹکرا جائے تو اعصاب میں پیدا ہونے والے شدید سگنلز کسی تیز بوچھاڑ کی مانند ہمارے دماغ تک پہنچتے ہیں جس کے جواب میں ہمارا دماغ فوری کارروائی عمل میں لاتا ہے اور ہم اپنا ہاتھ پیچھے ہٹا لیتے ہیں۔ اس حکمتِ عملی کے نتیجے میں ہمارا جسم کسی بڑے نقصان سے محفوظ رہتا ہے یا محفوظ رہنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔
یہ مصنوعی کھال ٹھیک اسی اصول پر کام کرتی ہے۔ یہ درجہ حرارت اور دباؤ میں تبدیلیوں کی مسلسل پیمائش کرتی رہی ہے اور ان میں سے کوئی بھی جیسے ہی ایک خاص حد سے کم یا زیادہ ہوتی ہے تو یہ اسے ’’درد‘‘ قرار دیتے ہوئے مرکزی نظام کو اس کی اطلاع دے دیتی ہے۔
توقع ہے کہ مستقبل میں اسے درد محسوس کرنے والے مصنوعی اعضا کے علاوہ ایسے انسان نما روبوٹس میں بھی استعمال کیا جاسکے گا جو سننے، دیکھنے، سونگھنے اور چھو کر محسوس کرنے کے ساتھ ساتھ ’’درد‘‘ محسوس کرنے کے قابل بھی ہوں گے۔