پچاس برس میں عالمی جنگلی حیات 68 فیصد کم ہوگئی، ڈبلیو ڈبلیو ایف


 ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر ( ڈبلیو ڈبلیوایف) نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں یہ اندوہناک خبردی ہے کہ 1970 کے بعد سے اب تک کرہِ ارض پر جنگلی حیات میں 68 فیصد (دوتہائی) کمی واقع ہوئی ہے۔

یہ تباہ کن کمی گزشتہ 50 برس میں ہوئی ہے جن میں ممالیوں، پرندوں، جل تھلیوں، رینگنے والے جانور اور حشرات سمیت دیگر اقسام کے جانور شامل ہیں۔

عالمی ذرائع ابلاغ نے اسے جنگلی حیات کے منہ کے بل گرنے سے تعبیر کیا ہے۔ دی لِونگ پلانیٹ (زندہ سیارہ) کی رپورٹ برائے 2020 کے مطابق افریقی ہاتھیوں سے لے کر کوسٹاریکا کے لیدر بیگ کچھووں تک کی تعداد میں ہوش ربا کمی ہوئی ہے۔ اس کی ذمے داری انسانوں پر عائد کی گئی ہے کیونکہ آلودگی، موسمیاتی تبدیلیوں اور بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کی وجہ سے ان جانوروں کے مسکن ختم ہورہے اور گھر اجڑ رہے ہیں۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے سربراہ مارکو لمبرٹینی نے اس واقعے کو ’تباہ کن‘ کہتے ہوئے اسے فطرت کے سرخ اشارے قرار دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق لاطینی امریکا اور کریبی علاقوں میں جنگلی حیات میں 94 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ پھر 1980 کے عشرے سے ہاتھیوں کے بے دریغ شکار سے 1985 سے 2000 تک اس جانور کی تعداد 94 فیصد تک کم ہوئی ہے۔ کانگو میں افریقی گوریلاؤں کی تعداد 67 فیصد تک کم ہوئی ہے جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔ جبکہ میٹھے پانی میں رہنے والی مخلوقات کی تعداد 84 فیصد تک گھٹ چکی ہے۔

رپورٹ کی تدوین میں ریڑھ کی ہڈی والے چار ہزار جانوروں کی 21 ہزار آبادیوں کا جائزہ لیا گیا۔ اس ضمن میں 68 فیصد کمی ان آبادیوں کی حجم میں ہوئی ہے ناکہ انفرادی طور پر جانور ختم ہوئے ہیں۔ صرف 1997 سے 2008 کے دوران اراوڈی ڈولفن کی آبادی 44 فیصد تک سکڑ گئی ہے۔ جبکہ گھانا میں بھی ہاتھیوں کی آبادی 60 فیصد تک کم دیکھی گئی ہے۔ لیدربیک کچھووں کی آبادی میں 84 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔

دوسری جانب ٹائیگروں کے تحفظ کے لیے شروع کئے جانے والے عالمی پروگرام کے مثبت نتائج ملے اور صرف نیپال کے ٹائیگروں کی تعداد میں 64 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ جنبوبی افریقہ کی ایک جھیل کے پارک میں لاگرہیڈ ٹرٹل کی آبادی بھی 154 فیصد بڑھی ہے۔

اسی طرح بعض اقسام کی شارک کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ زراعت اور پھلوں کی پیداوار کے لیے اہم سمجھی جانی والی مکھیوں کی تعداد میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے۔