نارتھ کیرولینا: خون کی روانی برقرار رہے تو یہ رحمت ہے اور کبھی خون جمع ہوکر لوتھڑے بن جائے تو اسے جان لیوا زحمت کہتے ہیں۔ اب نسیجوں اور رگوں میں جمے ہوئے خون کو الٹراساؤنڈ کی ڈرل سے پاش پاش کرکے خون کےبہاؤ کو رواں دواں رکھا جاسکتا ہے۔
نارتھ کیرولائنا اسٹٰیٹ یونیورسٹی نے بہت ہی باریک نینو قطروں کی آواز کی لہروں پر لوتھڑوں کے اندر دھکیلنے کا کامیاب مظاہرہ کیا ہے۔ یہ نینوقطرے ایک طرح سے منجمد خون کے اندر جاتے ہیں اور اندر سے ان لوتھڑوں کو منتشر کرکے بکھرادیتےہیں۔
اگرچہ یہی ٹیم 2017 میں خون کے لوتھڑوں کو الٹراساؤنڈ سے ہٹانے کا عملی مظاہرہ کرچکی تھی۔ لیکن اب اس میں مزید جدت کرتے ہوئے نینوذرات جیسے قطرے شامل کئے گئے ہیں جس سے کام مزید آسان ہوگیا ہے اور وہ اطراف میں خون کی نالیوں کو کسی بھی طرح نقصان نہیں پہنچاتیں۔
نینو قطروں کے اندر چکنائی کی انتہائی چھوٹی گولیاں موجود ہیں جن میں ایک مائع ’پرفلوروکاربنز( پی ایف سی) موجود ہوتا ہے۔
یہ نینوقطرے اتنے باریک ہوتے ہیں کہ خون کے سخت ترین لوتھڑے میں بھی گھس جاتے ہیں اور اندر جاکر لوتھڑے کو پھاڑ دیتےہیں اور وہ ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے۔
اس عمل میں مائع کو الٹراساؤنڈ ڈال کر گرم کیا جاتا ہے اور وہ اپنے بہت کم نقطہ گھولاؤ کی وجہ سے گیس میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
جیسے جیسے الٹراساؤنڈ کے جھماکے پڑتے ہیں ان قطروں کی تھرتھراہٹ میں اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ خون کے ٹکڑوں پر ہتھوڑوں کی طرح برستےہیں۔
نہ صرف اس طرح خون کے مجموعے بکھر جاتے ہیں بلکہ وہاں اینٹی کلوٹنگ یا لوتھڑے روکنے والی دوا پہنچانے میں بھی مدد ملتی ہے۔
اگلے مرحلے میں کئی ماڈلوں پر اس کی آزمائش کی گئی جن میں ادویہ بھی شامل کی گئیں۔ نصف گھنٹے تک مختلف تجربات کئے گئے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ الٹراساؤنڈ کے ذریعے مطلوبہ مقام تک دوا پہنچانا بھی بہت آسان ہوتا ہے۔ ایک تجربے میں خون کا لوتھڑا 40 فیصد تک کم کرنے کا عملی مظاہرہ بھی کیا گیا۔
اسی طرح خردبینی بلبلوں میں اینٹی کلوٹ دوا ڈال کر لوتھڑے کو مزید چھوٹا کیا گیا اور وہ گھٹ کر اصل جسامت سے صرف 17 فیصد تک رہ گیا۔
اس اہم کامیابی کے بعد اسے مختلف جانوروں پر آزمایا جائے گا اورپھر انسانوں کی باری آئے گی۔