ٹیکساس: موٹاپے اور بسیار خوری کا گہرا تعلق ہے۔ اسی لیے اب پیٹ بھرے کا احساس دینے والا ایک پیوند (امپلانٹ) بنایا گیا ہے جس کی جسامت صرف ایک سینٹی میٹر ہے۔
موٹاپے کے شکار افراد گیسٹرک بائی پاس سرجری سے گزرتے ہیں جو بہت مہنگا اور تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔ اب تجرباتی طور پر ایک پیوند تیار کیا گیا ہے جس کی جسامت صرف ایک سینٹی میٹر ہے۔
ٹیکساس اے اینڈ ایم یونیورسٹی کے پروفیسر سونگ پارک نے چپو نما چھلہ بنایا ہے۔ لیکن یہ اعصابی اور دماغی سگنل کو پیغام بھیج کراپنا کام کرتا ہے۔ اس کا ایک سِرا لچک دار ہے جس پر بہت ہی باریک ایل ای ڈی اور کوائل نما اینٹینا لگایا گیا ہے۔ نیچے کی جانب ایک خاص چپ لگائی گئی ہے۔ اس آلے کو چلانے کے لیے بیٹری موجود نہیں کیونکہ اسے پیٹ میں رکھنے کے بعد جسم کے باہر سے ریڈیائی امواج سے بجلی دی جاتی ہے۔
اس کا اصول بہت سادہ ہے یعنی سرجری کے ذریعے اسے پیٹ میں ایک رگ کے قریب لگایا جاتا ہے جسے ویگس نرو کہتے ہیں۔ ویگس نرو دماغ اور پیٹ سمیت کئی اعضا کے درمیان رابطے کا کام کرتا ہے۔ پیوند کو سرجری کے ذریعے ویگس نرو کے کنارے پر لگایا جاتا ہے۔
پھر جسم سے باہر ٹرانسمیٹر سگنل بھیجتا ہے اور اس کی وجہ سے پیٹ کے اندر موجود خردبینی ایل ای ڈی روشن ہوجاتی ہیں۔ ان کی روشنی اعصابی ریشے سے سفر کرکے دماغ تک جاکر یہ پیغام دیتی ہے کہ اس شخص کا پیٹ بھرچکا ہے اور یوں انسان کی بھوک ایک دم گرجاتی ہے۔ اس طرح پیوند لگوانے والا شخص کم خوراکی کا عادی ہوجاتا ہے۔
اس سے قبل بھی ویگس اعصابی مرکز کو متحرک کرکے بھوک مٹانے والے اندرونی پیوند بنائے جاتے رہے ہیں لیکن وہ پیس میکر کی طرح ہیں اور انہیں چلانے کے لیے جسم کے اندر ہی بیٹری لگانا پڑتی ہے تاہم اس نئی ایجاد میں بیٹری کا جھنجھٹ شامل نہیں اور اسے جسم سے باہر برقناطیسی شعاعوں سے چلایا جاتا ہے۔
دوسری جانب اس پیوند کی انتہائی چھوٹی جسامت بھی اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔ فی الحال اسے چوہوں پر آزمایا گیا ہے اور اس کے بہت اچھے نتائج برآمد ہوئے ہیں ۔ اس کا تفصیلی احوال نیچر کمیونکیشن نامی جرنل میں حال ہی میں کیا گیا ہے۔