سائنسدانوں نے پہلی بار ڈینگی بخار کا باعث بننے والے وائرس کو جسم میں پھیلنے سے روکنے میں مدد دینے والی اینٹی باڈی کو دریافت کرلیا ہے۔
امریکا کی کیلیفورنیا یونیورسٹی اور مشی گن یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق میں اس اینٹی باڈی کو دریافت کیا، جو مچھروں سے پھیلنے والے ڈینگی وائرس کے جسم میں پھیلنے کے عمل کو بلاک کرتی ہے۔
خیال رہے کہ ہر سال دنیا بھر میں 5 سے 10 کروڑ افراد ڈینگی سے متاثر ہوتے ہیں، جس کی علامات میں بخار، الٹیاں اور مسلز میں درد شامل ہے، جبکہ بیماری کی شدت بڑھے سے موت کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
اس وقت ڈینگی وائرس کا کوئی مؤثر علاج یا ویکسین موجود نہیں، چونکہ اس وائرس کی 4 اقسام ہیں، تو کسی ایک قسم کے خلاف اینٹی باڈیز کا بننا لوگوں کو دیگر اقسام کے مقابلے میں کمزور بناسکتا ہے، جس کے باعث مؤثر علاج کی دریافت زیادہ مشکل ہے۔
ڈینگی وائرس ایک مخصوص پروٹین استعمال کرتا ہے، جسے این ایس 1 کہا جاتا ہے، جو اعضا کے ارگرد حفاظت کرنے والے خلیات کو اپنی جانب للچاتا ہے۔
اس کے نتیجے میں تحفظ فراہم کرنے والی رکاوٹ کمزور ہوتی ہے اور وائرس کو خلیات متاثر کرنے کا موقع ملتا ہے، جس سے خون کی شریانیں بھی متاثر ہوسکتی ہیں۔
اس تحقیق کے دوران ماہرین نے ایک اینٹی باڈی 2 بی 7 کو آزما کر دیکھا گیا جو این ایس 1 پروٹین کو بلاک کرنے میں کامیاب رہا، جس سے وائرس کو خلیات سے منسلک ہونے سے روکا جاسکا اور اس کے پھیلنے کی رفتار سست ہوگئی۔
محققین کے مطابق چونکہ یہ اینٹی باڈی وائرس کی بجائے براہ راست پروٹین پر حملہ کرتی ہے، اسی لیے یہ ڈینگی وائرس کی چاروں اقسام کے خلاف مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔
محققین نے اس کی افادیت جانچنے کے لیے ایکس رے ڈیفریکشن تیکنیکس کو استعمال کرکے ثابت کیا کہ اس اینٹی باڈی سے وائرس کے خلاف تحفظ مل سکتا ہے۔
محققین نے زندہ چوہوں میں اس اینٹی باڈی کے استعمال سے ڈینگی وائرس کو پھیلنے سے روکنے میں کامیابی حاصل کی۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے سائنس میں شائع ہوئے، جس میں بتایا گیا کہ یہ اینٹی باڈی ڈینگی جیسے دیگر وائرسز جیسے زیکا اور ویسٹ نائل کے خلاف بھی مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ مچھروں سے پھیلنے والے وائرسز ہر سال کروڑوں افراد کو بیمار کرتے ہیں اور ان سے پھیلنے والے امراض سے لاکھوں اموات ہوتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ وائرس کے پروٹین کی ساخت متعدد امراض کے لیے ادویات اور ویکسینز کی تیاری میں مرکزی کردار ادا کرتی ہے اور یہ نئے نتائج بھی ڈینگی کے خلاف مؤثر علاج کی تیاری کی کنجی ثابت ہوسکتے ہیں