کیلیفورنیا / سان فرانسسکو: ایک حالیہ تحقیق میں امریکی ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ ڈپریشن کے مریضوں کو بجلی کے معمولی دماغی جھٹکے دے کر شدید ڈپریشن تک ختم کیا جاسکتا ہے۔
البتہ اس طریقے کے مؤثر ہونے کےلیے ضروری ہے کہ متعلقہ مریض ایک مخصوص کیفیت میں ہو جبکہ دماغ کے خاص حصوں کو یہ ہلکے برقی جھٹکے بہت احتیاط سے دیئے جائیں۔
فی الحال یہ تحقیق صرف ایک مریض پر کی گئی ہے جس کی تفصیلات ’’نیچر میڈیسن‘‘ کے تازہ ترین شمارے میں ’’کیس اسٹڈی‘‘ کے طور پر شائع ہوئی ہے۔ لہذا یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ ڈپریشن کے علاج کا یہ طریقہ کب تک عوام کےلیے دستیاب ہوگا۔
واضح رہے کہ ڈپریشن (اضمحلال) کی بعض کیفیات اتنی شدید ہوتی ہیں کہ ان میں کسی طرح کی اینٹی ڈپریسنٹس (ڈپریشن کا علاج کرنے والی دوائیں) کھانے سے بھی افاقہ نہیں ہوتا۔
کیس اسٹڈی میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان فرانسسکو (یو سی ایس ایف) کے ماہرین نے بجلی کے دماغی جھٹکوں سے ڈپریشن کے علاج کا طریقہ ایک 36 سالہ خاتون رضاکار پر آزمایا گیا جو کئی برسوں سے شدید ڈپریشن کا شکار تھیں اور ان پر کوئی دوا بھی اثر نہیں کررہی تھی۔
علاج سے پہلے دماغ کے اُن تین حصوں کی نشاندہی بھی کی گئی جنہیں تحریک دے کر ڈپریشن دور کرنے کی توقع تھی۔
البتہ ڈپریشن کے علاج کا یہ طریقہ صرف اسی وقت کارگر ہوسکتا تھا جب مریض کا موڈ ایک خاص کیفیت میں ہو اور اس میں کچھ خاص علامات بھی موجود ہوں۔ بصورتِ دیگر بجلی کے ہلکے دماغی جھٹکوں سے ڈپریشن کی شدت بڑھ بھی سکتی تھی۔
اس مقصد کےلیے رضاکار خاتون کا موڈ مطلوبہ کیفیت میں لانے کےلیے ماہرین نے ایسا ماحول اور ایسے حالات پیدا کیے جن سے وہ بتدریج مطلوبہ کیفیت میں آگئیں۔
اس کے فوراً بعد خاتون کے سر پر کچھ الیکٹروڈز (برین امپلانٹس) لگائے گئے جن سے تھوڑی دیر تک ہلکی بجلی کے جھٹکے ان دماغی حصوں پر مرکوز کیے جاتے رہے۔
جو بات سب سے زیادہ حیران کن رہی کہ وہ خاتون جو گزشتہ چند سال سے مسکرائی بھی نہیں تھیں، وہ اس مرحلے کے اختتام پر بے اختیار ہنسنے لگیں۔
یو سی ایس ایف کی پریس ریلیز کے مطابق، ان خاتون کا کہنا تھا کہ انہیں کئی سال بعد پہلی بار اندر سے کسی انجانی خوشی کا احساس ہوا، ’’یہ خوشی اتنی زیادہ تھی کہ میں بے اختیار ہنسنے پر مجبور ہوگئی۔ مجھے یوں لگا جیسے کوئی اندر ہی اندر مجھے گدگدی کرکے ہنسا رہا ہے۔‘‘
خاتون کا یہ بھی کہنا تھا کہ دورانِ علاج انہیں دماغ تک پہنچنے والی بجلی کے جھٹکے بالکل محسوس نہیں ہوئے۔
بتاتے چلیں کہ طبّی تحقیق میں شریک کسی بھی رضاکار یا مریض کی اصل شناخت ظاہر نہیں کی جاسکتی کیونکہ ایسا کرنا، طبّی اخلاقیات کی خلاف ورزی قرار دیا جاتا ہے۔
تحقیق کے دوران وہ خاتون دس تک اسپتال ہی میں رہیں جس کے بعد انہیں گھر بھیج دیا گیا۔ اپنے روزمرہ کاموں میں دوبارہ مصروف ہوجانے کے بعد وہ خاتون اگلے چھ ہفتوں تک ڈپریشن میں مبتلا نہیں ہوئیں۔ تحقیقی ٹیم کا دعوی ہے کہ اس طریقے سے ڈپریشن کا علاج کرنے پر کوئی منفی ضمنی نتائج سامنے نہیں آئے۔
بجلی اور مقناطیسی طاقت سے ڈپریشن سمیت مختلف دماغی بیماریوں کا علاج کوئی نئی بات نہیں۔ گزشتہ سال بھی اسی طرح کی ایک تحقیق میں مقناطیسی طاقت کے ذریعے شدید ڈپریشن کے مریضوں کو بہت افاقہ ہوا تھا۔
تازہ تحقیق کو بھی اسی سلسلے کی ایک منطقی کڑی سمجھنا چاہیے۔