الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے قانون ساز ایوان بالا (سینیٹ) کی 48 نشستوں کے لئے انتخابات‘ کی تاریخوں کا اعلان کر دیا گیا ہے جس کے مطابق امیدواروں کی ابتدائی فہرست چودہ فروری‘ جانچ پڑتال کا عمل سولہ فروری اور حتمی فہرست اکیس فروری تک جاری ہو جائے گی جبکہ پولنگ کے لئے ’3 مارچ‘ کا دن مقرر کیا گیا ہے۔ پاکستان کی انتخابی تاریخ میں سینیٹ انتخابات سے اگرچہ عام آدمی کا بطور ووٹر تعلق نہیں لیکن اِس پورے عمل میں عوام کے منتخب نمائندوں کی ہر ایک حرکت پر نظر رکھنے والوں کے لئے ہر ڈھائی سال بعد سینیٹ انتخابات کا موقع اِس دلچسپ بحث کے آغاز و اختتام کے ساتھ مکمل ہوتا ہے کہ ووٹوں کی خرید و فروخت (ہارس ٹریڈنگ) ہوئی ہے! بظاہر سیاسی اصول پسندی کا روپ دھار کر یہ کہا جا رہا ہے کہ سینیٹ الیکشن میں اراکین کی بولیاں لگتی ہیں اِس لئے تحریک اِنصاف (پی ٹی آئی) اُوپن بیلٹ اپنا کر اس طریقے کو شفاف بنانا چاہتی ہے۔ حقیت یہ ہے کہ اگر سیاسی اصول پسندی ہو تو فیصلے سود و زیاں اور نفع نقصان سے اوپر اٹھ کر کئے جاتے ہیں مگر تلخ ترین پہلو یہ ہے کہ پی ٹی آئی ہو یا نواز لیگ ہو یا پیپلز پارٹی‘ سب کو اصول صرف اپنے فائدے میں یاد آتے ہیں اور نقصان ہو تو اصول بھلا دیئے جاتے ہیں۔ سینیٹ انتخابات میں رائے دہی پہلے سے زیادہ مشکوک ہو گئی ہے جس کی وجہ بظاہر ووٹوں کی خریدو فروخت سے متعلق وڈیو وائرل ہونا ہے چونکہ اِس ویڈیو سے تحریک انصاف کے مو¿قف کو تقویت ملتی ہے جو اوپن ووٹنگ سے متعلق ہے تاہم اِس ویڈیو کی موجودگی سے آن دی ریکارڈ انکار کرنے کے باوجود اِسے جاری کرنے اُور پھر ایک ایسے وقت میں جاری کرنا جبکہ اِس کے سیاسی مقاصد بھی ہیں تاکہ سینیٹ انتخابات میں خفیہ رائے شماری سے ووٹنگ کے خلاف فضا بن سکے اور عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) پر بھی یہ دباو¿ پڑے کہ وہ حکومتی ریفرنس پر حکومتی مرضی ہی کے مطابق فیصلہ سنائے۔ مذکورہ وڈیو کے بعد خیبر پختونخوا کے وزیر قانون سے استعفی طلب کیا گیا جبکہ سولہ سے سترہ اراکین صوبائی اسمبلی پہلے ہی اِس اپنے کئے کی سزا بھگت چکے ہیں کہ اُنہیں عام انتخابات میں تحریک انصاف نے نامزد نہیں کیا۔ سیاست اور اصول پسندی‘ بظاہر یہ دو انتہائیں ایک دوسرے سے متضاد ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ تحریک انصاف نے پنجاب میں نواز لیگ اور دیگر اراکین اسمبلی کے ساتھ جوڑ توڑ ہی کے ذریعے چودھری سرور کو سینیٹر منتخب کروایا تھا اور تب بھی اِس انتخاب پر حیرت کا اظہار کرنے والوں نے اِس جانب توجہ دلائی تھی کہ سینیٹ انتخابات میں وفاداریاں خریدنے کا عمل تعمیری نہیں لیکن تحریک انصاف نے ہر اعتراض کو ایک کان سے سنا اور دوسرے سے نکال دیا اور خاموش رہنے میں غنیمت سمجھی۔ سینیٹ انتخابات کے حوالے سے پنجاب اسمبلی کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو بھی تاریخ زیادہ قابل رشک نہیں۔ موجودہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے اراکین اسمبلی خوش نہیں۔ اس لئے اندیشہ ہے کہ پنجاب میں کئی اراکین صوبائی اسمبلی تحریک انصاف کی مرضی کے خلاف سینیٹ انتخابات میں ووٹ دے سکتے ہیں یہ بات بہرحال طے ہے کہ اگر پنجاب میں سینیٹ الیکشن سیکرٹ بیلٹ سے ہوا تو تحریک کے اندر کی کئی ناراضگیاں کھل کر سامنے آئیں گی اور تحریک سینیٹ انتخابات کے بعد طاقتور ہونے کے بجائے کمزور ہو کر سامنے آئے گی۔ اوپن بیلٹ ہو تو لوگ بغاوت کے خوف سے کھل کر سامنے نہیں آئیں گے اور یوں تحریک انصاف کامیاب رہے گی ’ہارس ٹریڈنگ‘ اگر اِس مرتبہ بھی ہو تو اِس پر تعجب کا اظہار کرنے کی بجائے جمہوریت کے تسلسل کے لئے کوشش کرنی چاہئے کیونکہ صرف جمہوریت ہی واحد ایسی صورت ہے جس کے ذریعے سیاست اور اقتدار (طرز حکمرانی) کی تطہیر ممکن ہے۔(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر:ڈاکٹر سیمی جاوید۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)