پاک بھارت تعلقات: نازک صورتحال

پندرہ اور سولہ اکتوبر اسلام آباد میں منعقدہ ’ایس سی او‘ اجلاس میں بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر شریک ہوئے۔ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) سربراہ اجلاس غیرمعمولی اہمیت اختیار کر گیا کیونکہ تقریباً ایک دہائی کے کشیدہ تعلقات کے بعد اور دوہزارپندرہ کے بعد کسی بھارتی وزیر کا پاکستان کا یہ پہلا دورہ تھا۔ جے شنکر کے دورے سے ان قیاس آرائیوں کو تقویت ملی کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کم ہوسکتی ہے اگرچہ انہوں نے پہلے ہی واضح کر دیا تھا کہ یہ دورہ خالصتاً کثیر الجہتی روابط کے لئے تھا۔ اِس غیرمعمولی دورے کے فوراً بعد دونوں ممالک نے نومبر 2019ءکے معاہدے میں توسیع کا اعلان کیا، جس میں سکھ یاتریوں کے لئے اکتوبر 2029ءتک کرتارپور صاحب راہداری تک ویزا فری رسائی کو یقینی بنایا جائے گا۔ جے شنکر کے دورے سے پہلے اس معاہدے کی تجدید پر کام جاری تھا چونکہ بھارت سکھوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی وجہ سے عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بن رہا ہے اس لئے مذکورہ معاہدے کی تجدید کی مخالفت بھارت کے چیلنجوں میں اضافہ کر سکتی تھی۔ ان پیش رفتوں نے بھارت کے مو¿قف میں ممکنہ نرمی کی طرف اشارہ کیا اور برسوں کی دشمنی کے بعد کسی نہ کسی طرح کے تعلقات کی امید پیدا کی۔ اس تاثر کو بھی تقویت ملی جو دوہزارچوبیس کے انتخابی موسم کے دوران بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے دیا تھا۔ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ مودی اپنی سیاسی وراثت کو مضبوط بنانے کے لئے پاکستان کے ساتھ بات چیت کے جرا¿ت مندانہ اقدامات کر سکتے ہیں جیسا کہ سابقہ بھارتی وزرائے اعظم نے اپنے آخری ادوار میں کیا تھا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان کی انتخابی مہم نے 2019ءکے انتخابات کے دوران پاکستان مخالف بیانات سے گریز کیا۔جے شنکر کے دورے کے بعد، توجہ پاکستان میں آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی میں ہندوستانی کرکٹ ٹیم کی ممکنہ شرکت پر مرکوز ہوگئی۔ اس طرح کے اقدام کو دوطرفہ تعلقات میں تعطل کو ختم کرنے کے طور پر دیکھا گیا تاہم، یہ اُمید بھری سوچ بنی رہی۔ دیرینہ تنازعات کے حل کے لئے بھارت سے پاکستان کے ساتھ تعمیری مذاکرات کی توقع رکھنا غیر حقیقی ہے۔ سال دوہزارچودہ میں انتہائی دائیں بازو کی ہندوتوا کی زیر قیادت بی جے پی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان کے بارے میں ہندوستان کا مو¿قف تیزی سے سخت ہوتا جا رہا ہے اور اس پر سمجھوتہ کرنے کی کوئی خواہش نہیں۔ یہ ہٹ دھرمی جزوی طور پر بھارت کے بڑھتے ہوئے عالمی اثر و رسوخ اور بحرہند و بحرالکاہل کی تعمیر میں خالص سیکورٹی فراہم کنندہ کے طور پر اس کی پوزیشن کی پیداوار ہے۔بھارت پاکستان کے ساتھ تبھی بات چیت میں دلچسپی رکھتا ہے جب وہ اپنے مقاصد سے ہم آہنگ ہو۔ مثال کے طور پر لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر جنگ بندی کا معاہدہ دوہزاربیس کے گلوان بحران کے بعد سے چین کے ساتھ لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر جاری کشیدگی کی وجہ سے برقرار ہے۔ دو محاذوں پر تصادم سے بچنے کے لئے بھارت کو پاکستان کے ساتھ جنگ بندی پر عمل کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ بھارت اور چین نے حال ہی میں چار سال کے تعطل اور اکیسویں دور کی فوجی بات چیت کے بعد معاہدہ کیا تھا لیکن اس معاہدے کی تفصیلات ابھی تک سامنے نہیں آئیں۔ اعتماد کی یہ کمی کے باعث متنازعہ علاقوں پر پاکستان اور چین دونوں کے ساتھ بھارت کے تعلقات غیر یقینی رہنے کی اُمید ہے۔بھارت کی جانب سے 1960ءکے سندھ طاس معاہدے پر نظر ثانی اور اس میں ترمیم کی مسلسل کوششیں پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات کی کمزوری کو اجاگر کر رہی ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان آبی وسائل کی تقسیم سے متعلق یہ معاہدہ اُس وقت دبا¶ کا شکار ہوا جب بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کے بڑھتے ہوئے مطالبات کو پورا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ گزشتہ سال اپریل میں مستقل ثالثی عدالت (پی سی اے) کی جانب سے معاہدے پر بھارت کے اعتراضات کو مسترد کرنے کے باوجود بھارت نے کاروائی کا بائیکاٹ کیا اور عدالت کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھایا۔ ستمبر 2024ءمیں بھارت نے پاکستان کو دوسرا باضابطہ نوٹس جاری کیا جس میں 64 سال پرانے معاہدے پر نظر ثانی اور ترمیم کا مطالبہ دہرایا گیا۔ یہ بین الاقوامی ثالثی اور اس کے پن بجلی منصوبوں کو نظر انداز کرنے اور معاہدے کی شقوں کی واضح خلاف ورزی ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ماہین شفیق۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)


اسموگ جیسے تجارتی اور ماحولیاتی مسائل پر بھی پاک بھارت بات چیت ہوئی ہے تاہم، بہت کم پیش رفت دیکھنے میں آئی۔ پاکستان نے اگست 2019ءمیں بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کے بعد تجارتی تعلقات معطل کردیئے تھے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو بحال کیا جائے۔ کچھ بھارتی تجزیہ کاروں نے ہائی کمشنرز کی بحالی کا مطالبہ بھی کیا ہے لیکن کشیدگی کم ہونے تک اس طرح کے اقدامات ناممکن نظر آتے ہیں۔ نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان بات چیت کے لئے ضروری ہے کہ یہ باہمی طور پر قابل قبول شرائط پر مبنی ہو، نہ کہ صرف بھارت کے مطالبات پر بات چیت ہو۔ پاکستان اہم معاملات بالخصوص آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی کے ساتھ وسیع تر مسئلہ کشمیر پر اپنے قانونی اور اخلاقی مو¿قف پر قائم ہے۔ اگر بھارت واقعی پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا چاہتا ہے تو اسے تجارت اور کھیلوں جیسے معاملات کو سیاسی رنگ دینا ترک کرنا ہوگا۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ماہین شفیق۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔