امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی اپنی جگہ لیکن امریکہ کا زوال جاری ہے کیونکہ امریکہ بڑی تیزی کے ساتھ قیادت، اعتماد، اخلاقی اختیار اور معاشی بالادستی کھو رہا ہے۔ قطع نظر اس کے کہ امریکہ کا صدر کون ہے۔ ٹرمپ بیک وقت امریکی ہٹ دھرمی کے تازہ ترین پرچم بردار اور امریکی زوال کے علمبردار ہوں گے‘ چار دہائیاں قبل پال کینیڈی کی کتاب ’دی رائز اینڈ فال آف دی گریٹ پاورز‘ نے امریکی زوال کی ممکنہ وجہ ’سامراج کے حد سے تجاوز‘ کو قرار دیا تھا جس سے بقول اُن کے تنازعات جنم لے رہے ہیں۔ اس وقت امریکیوں میں اضطراب پیدا کرنے میں سب سے بڑا چیلنج جاپان تھا، جس کی نمایاں دولت، کاروں اور الیکٹرانکس میں بہتر ٹیکنالوجی اور مینجمنٹ تکنیک امریکی بزنس سکولوں میں پڑھائی جانے والی ٹیکنالوجی سے بہتر تھی۔ 1989ء کا آغاز افغانستان سے سوویت افواج کے انخلأ سے ہوا۔ سرمایہ دارانہ نظام سے منسلک لبرل جمہوریت کی فتح کا اعلان فرانسس فوکویاما نے اپنے مضمون ”تاریخ کے خاتمہ“ میں کیا تھا۔ دیوار برلن گر گئی اور اس کے ساتھ لوہے کے پردے کو بھی گرا دیا گیا۔ امریکی فاتحین نے دعویٰ کیا کہ یہ سوویت یونین تھا جو نئی واحد سپر پاور نہیں بلکہ ’اُوور اسٹریچ‘ کا شکار ہوا تھا۔ سوویت یونین نے 1990ء میں جرمنی کے دوبارہ اتحاد پر اتفاق کیا اور صدام حسین کے کویت پر حملے نے یونی پولر دنیا کے نام سے ’نئے عالمی نظام‘ کا آغاز کیا۔ سال 1991ء میں پہلی عراق جنگ اور سوویت یونین کے خاتمے میں امریکہ کی فتح ہوئی۔ 1991ء سے 2001ء کی دہائی نے امریکہ کو ہائپر پاور کے طور پر پیش کیا۔ جب سوویت یونین ٹوٹ گیا، چین سو رہا تھا اور انٹرنیٹ وجود میں آیا تو امریکہ نے ایڈورڈ گبن کی کتاب ’رومی سلطنت کے زوال اور زوال‘ میں ”اعتدال پسند عظمت“ کا ذکر کیا۔ اُس وقت امریکہ کو کوئی چیلنج نہیں تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ امریکہ اکیسویں صدی میں جدیدیت کی تعریف کرے گا جیسا کہ اس نے بیسویں صدی میں کی تھی۔ ستمبر 2001ء (نائن الیون) کی صبح دہشت گردی کی جگہ غرور، غیر لبرل ازم اور زینوفوبیا نے لے لی۔ اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں دو جنگوں اور دو اقتصادی واقعات نے امریکی زوال کی ڈھلان کو ہلکا کر دیا۔ ہائپر پاور نے افغانستان پر غصے اور عراق پر تکبر کا اظہار کیا۔ امریکہ دونوں جنگیں ہار چکا ہے۔دوسری جنگ عظیم کے دوران ہٹلر کے سوویت یونین پر حملے کے بعد سے عراق پر حملہ سب سے بڑی غلطی تھی۔ افغانستان کی جنگ میں امریکی شکست کی جامعیت کو بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کئی دہائیوں، کئی کھرب ڈالر کی فوجی، تکنیکی، تزویراتی اور سیاسی تباہی تھی۔ عراق اور افغانستان پروفیسر کینیڈی کی ’سامراجی بالادستی‘ کا باعث ثابت ہوئے۔ دو معاشی واقعات، ایک نائن الیون سے ایک سال پہلے اور دوسرا سات سال بعد امریکہ میں نائن الیون سے کہیں زیادہ تباہی مچا چکا ہے۔ سال 2000ء میں چین کی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں شمولیت نے امریکی مینوفیکچرنگ کے کھوکھلے ہونے کے عمل کو تیز کر دیا اور صرف ایک دہائی بعد چین کو دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بنا دیا۔ اس کے بعد سے یہ جاپانی، بھارتی اور جرمن کی مشترکہ معیشتوں سے بڑا ہو گیا ہے۔2008 ء کے سب بڑے بحران نے تقریباً دو دہائیوں تک مغربی معاشی ترقی کو دبائے رکھا ہے اور نیو لبرل جمہوریت اور اس کے معاشی بازو گلوبلائزیشن پر مغربی عوام کے اعتماد کو ہلا کر رکھ دیا ہے جبکہ مغربی جمہوریتوں میں رائے دہندگان نے جمہوریت پر سوال اٹھانا شروع کر دیئے تھے۔ چین سال بہ سال نہیں بلکہ دہائیوں کے بعد جی ڈی پی کی شرح نمو میں بہتری کے اہداف حاصل کر رہا تھا۔مغرب نے سرد جنگ صرف اس لئے نہیں جیتی کہ اس کے پاس لافٹی آئیڈیلز تھے بلکہ اس لئے کہ یہ کمیونسٹ بلاک کے مقابلے میں دہائیوں بعد زیادہ امیر اور تکنیکی طور پر زیادہ جدت رکھنے والا تھا۔ چین کی کارکردگی نے لبرل جمہوریت کو معاشی طاقت اور حال ہی میں تکنیکی جدت سے جوڑ دیا۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ دنیا بھر میں رائے دہندگان کا جھکاؤ انڈونیشیا سے لے کر بھارت، ہنگری اور امریکہ تک مطلق العنان عوامیت پسندی کی طرف ہے۔امریکی زوال کا آخری حصہ اخلاقی ہے جسے گبن نے ”شہری خوبی“ کے نقصان کا نام دیا ہے۔ ابو غریب نامی جیل سے سے لے کر منافقت تک‘ یقینی طور پر رعونت امریکی طرز عمل میں سرایت کر چکی ہے۔ سرد جنگ کے دوران جب تک سوویت یونین اور اس کے سیٹلائٹس اپنے شہریوں کی آزادیوں کو دباتے رہیں گے، انہیں معاشی حقوق سے محروم رکھیں گے اور ان کی محرومیوں کو گہرا کریں گے تو اِس سے مساوات پیدا نہیں ہوگی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ابھرنے والی امریکی عالمی خوبی اپنی طاقت کھو چکی ہے۔ امریکہ نے نئے بین الاقوامی اداروں کی تشکیل کی ہے جو جنگ روکنے اور غریب ممالک کی مدد کرنے کے لئے ڈیزائن کئے گئے تھے۔ اقوام متحدہ، آئی ایم ایف، نیٹو اور ورلڈ بینک اس کی سب سے نمایاں مثالیں ہیں۔ ان اداروں کی خوبیاں قابل بحث ہیں۔ امریکہ نے دنیا کو محفوظ بنانے کے لئے کام کیا ہے اور قواعد پر مبنی نظام قائم کر رکھا ہے جس میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے حق میں بیان تو دیئے جاتے ہیں لیکن اِنہیں پائمال بھی کیا جا رہا ہے اور سرد جنگ کو اخلاقی صلیبی جنگ میں تبدیل کر دیا ہے۔امریکی زوال کے پہلو صرف افغانستان اور عراق میں نظر نہیں آرہے ہیں۔ اس کا آغاز 1971ء میں سونے کے معیار کو زبردستی ترک کرنے‘ 1973ء میں اوپیک کے تیل پر پابندی‘ 1974ء میں صدر نکسن کے استعفے اور ایک سال بعد سیگون کے زوال سے ہوا۔1970ء کی دہائی کے اواخر میں امریکی شہروں میں نظر آنے والی بدحالی‘ 1995ء میں اوکلاہوما بم دھماکے‘ 2005ء میں سمندری طوفان کترینہ اور کورونا وبا سے نمٹنے میں ہلاکت خیزی‘ جس میں بارہ لاکھ سے زیادہ امریکی ہلاک ہوئے۔ امریکی شہروں کا مستقبل دبئی اور شنگھائی کی طرح تابناک دکھائی نہیں دیتا۔ امریکہ اب بھی فوجی اخراجات اور دنیا بھر میں فوجی طاقت کے مظاہرے کی صلاحیت میں سب سے آگے ہے۔ فوجی اخراجات کا فرق یکطرفہ ہے۔ امریکہ اپنے دفاع پر دس ممالک کے مجموعی اخراجات سے زیادہ خرچ کرتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ اب بھی واحد سپر پاور ہے۔ امریکی معیشت اب بھی دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے، اس کی سب سے بڑی طاقت انٹرنیٹ پر مبنی معیشت ہے جو اب بھی اس کی مینوفیکچرنگ کی صلاحیت میں کمی کو چھپائے ہوئے ہے۔ امریکی ڈالر اب بھی دنیا کی غالب کرنسی ہے۔ کچھ لوگ یہ دلیل دیں گے کہ امریکہ دوسری جنگ عظیم سے پہلے کی صورت حال کی طرف لوٹ رہا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر انجینئر خرم دستگیر خان۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
‘ شاید ایسا ہی ہو لیکن میں بہت سے لوگوں کی طرح ایک ایسے امریکہ کو اُبھرتے ہوئے دیکھ بھی رہا ہوں جو‘ ہر کسی کو خوش آمدید کہہ رہا ہے اور اپنے بانی نظریات پر پورا اترنے کی کوشش بھی کر رہا ہے۔