کرکٹ تنازعہ

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کی جانب سے آئندہ سال فروری اور مارچ میں ہونے والے چیمپئنز ٹرافی 2025ءمقابلوں کی تیاریاں جاری ہیں‘ اِس میگا ایونٹ کے انعقاد کی ذمہ داری پاکستان کو سونپی گئی ہے جس سے شائقین کرکٹ پرجوش تھے کہ دو روایتی حریف کرکٹ ٹیموں (پاکستان اور بھارت) کے درمیان تقریباً تین دہائیوں بعد پہلی بار پاکستانی سرزمین پر آمنا سامنا ہوگا لیکن بدقسمتی سے بھارت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنی ٹیم پاکستان نہیں بھیجے گا۔ اِس خبر کے آنے سے کرکٹ شائقین افسردہ ہیں‘ بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی کرکٹ ٹیم پاکستان میں ہونے والی چیمپئنز ٹرافی مقابلوں میں شرکت نہیں کرے گی۔ دونوں ممالک میں کرکٹ کو انتہائی جذباتی اور پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور یہی وجہ تھی کہ ذرائع ابلاغ میں گویا کہ ہنگامہ برپا ہوگیا اور پھر اگلے ہی روز بھارتی کرکٹ بورڈ کی جانب سے اپنے فیصلے کی باقاعدہ تصدیق بھی کر دی گئی کہ اِس حوالے سے آئی سی سی کو باضابطہ طور پر آگاہ کردیا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان ماضی میں دو طرفہ کشیدگی کے باوجود اپنی کرکٹ ٹیم بھارت بھیجتا رہا ہے جو ایک ذمہ دار ملک ہونے کا ثبوت ہے جبکہ بھارت نے پاکستان کو خیرسگالی کے ساتھ جواب واپس نہیں دیا۔ بھارت کی عدم شرکت سے آئی سی سی کو بھی شدید مالی نقصان پہنچے گا کیونکہ پاکستان بھارت مقابلے کی متوقع اور غیرمتوقع ذرائع سے آمدنی ہوتی ہے۔
 حالیہ تنازع کے بعد ٹکٹوں کی فروخت، براڈکاسٹنگ رائٹس اور اسپانسرشپ پر بھی منفی اثر پڑنے کا خدشہ ہے۔ اطلاعات کے مطابق آئی سی سی اپنی ساکھ بچانے کے لئے ہائبرڈ ماڈل تجویز کر رہا ہے جس کے مطابق کچھ میچز پاکستان اور باقی میچز متحدہ عرب امارات یا سری لنکا میں کھیلے جائیں گے تاہم پاکستان نے اس تجویز کو قبول نہیں کیا اور کہا جا رہا ہے کہ وہ مائنس انڈیا صورتحال پر قانونی چارہ جوئی کرنے کے لئے غور (مشاورت) کر رہا ہے‘بھارتی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ اگر پاکستان نے آئی سی سی کی تجویز پر عمل نہ کیا تو ٹورنامنٹ مکمل طور پر جنوبی افریقہ منتقل کیا جاسکتا ہے تاہم دیگر ممالک کے کرکٹ بورڈز بھی اس پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ اگر بھارتی اثر و رسوخ کی وجہ سے ایسا کچھ ہوتا ہے تو پاکستان مستقبل میں بھارت کے ساتھ تمام ٹورنامنٹس میں شرکت کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کر سکتا ہے۔ کرکٹ کے میدان میں جاری غیر یقینی صورتحال کے باعث آئی سی سی ممبران کی رائے بھی تقسیم ہونے کا خدشہ اپنی جگہ موجود ہے۔ ہمسایہ ملک کی جانب سے حالیہ انتہا پسندانہ اقدام کی حمایت کوئی بھی ذی شعور نہیں کرسکتا۔
 چند برس قبل اپنے دورہ¿ بھارت کے دوران راقم الحروف نے اس وقت کی بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو پاکستانی عوام کی جانب سے امن کا پیغام پہنچایا تھا۔ مجھے اب بھی یقین ہے کہ کرما کے سال میں مودی حکومت کو نفرت اور جارحانہ پالیسیوں کی سیاست ترک کرنے کا ایک اور موقع ملا ہے اور وہ اسے ضائع کرنا پسند نہیں کریں گے۔حالیہ برسوں میں آسٹریلیا، انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ سمیت دنیا کی تمام بڑی کرکٹ ٹیمیں پاکستان کا دورہ کرچکی ہیں اور کرکٹ کھیلنے والے تقریباً تمام ممالک چیمپئنز ٹرافی میں شرکت کے لئے پاکستان آنے کو تیار ہیں تو پھر بھارت سیکیورٹی خدشات کی آڑ میں نفرت کیوں پھیلا رہا ہے؟ عمومی مشاہدہ ہے کہ جب بھی سرحد پار سے کوئی پاکستان کا دورہ کرنے آتا ہے تو وہ ہمیشہ پاکستانی عوام کے گرمجوشی اور پرخلوص استقبال کی تعریف کرتے ہوئے واپس جاتا ہے۔بھارتی میڈیا کے مطابق شدید کشیدگی کے اِس ماحول میں صرف ایک براہ¿ راست فون کال ہی بھارتی کرکٹ ٹیم کو پاکستان لا سکتی ہے اور وہ فون کال اگر سابق وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے نریندر مودی کو کی جائے۔ مودی پاکستان کا غیر اعلانیہ دورہ کر چکے ہیں جس کا ذکر بھارتی میڈیا میں کیا جا رہا ہے۔ چیمپئنز ٹرافی کا میگا ایونٹ عالمی سطح پر پاکستان کے مثبت تشخص کو اجاگر کرنے کے ساتھ پاکستان اور بھارت کے عوام کو قریب لانے کا بھی سنہری موقع ہے تاہم بھارتی قیادت کو اس معاملے کی حساسیت کو سمجھنا چاہئے اور کھیلوں کو متنازع بنانے سے گریز کرنا چاہئے۔ دعا ہے کہ بہت جلد دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان پاکستانی سرزمین پر کرکٹ مقابلوں کا انعقاد ہو اور شائقین کرکٹ کی خواہشات پوری ہوں۔ 
(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر رامیش کمار وانکوانی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)