حقائق کی تلاش

سی بی ایس نیوز نے فن لینڈ کے ایک سکول کا دورہ کیا‘ جہاں میڈیا اور معلوماتی خواندگی نصاب کا لازمی حصہ ہیں اور یہ تعلیم ابتدائی درجات یعنی چھ سال کی عمر سے شروع ہو جاتی ہے۔ نیوز رپورٹ میں ایسے دس سالہ بچوں کے ایک گروپ کو دکھایا گیا جنہوں نے انگریزی زبان کے علاو¿ہ فن لینڈ کی زبان پر بھی عبور حاصل کیا اور وہ اِس قابل بھی تھے کہ حقائق اور افسانے میں تمیز کر سکیں اور اِس بارے میں سوالات پوچھ سکیں۔ ایک طالب علم نے میزبان کو بتایا کہ اسے اس خبر پر یقین نہیں آیا کہ دس سال قبل دوسرے سیاروں سے مخلوق زمین پر اتری ہو گی کیونکہ اگر ایسا ہوتا، تو اب تک کوئی نہ کوئی انہیں دیکھ چکا ہوتا۔ ایک اور طالب علم نے ایک ویب پیج کا جائزہ لیا جس میں دعوی کیا گیا تھا کہ دوہزاربیس کے امریکی انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی۔ انہوں نے ذرائع کی نشاندہی انتہائی دائیں بازو کی ویب سائٹ کے طور پر کی جس کا غلط معلومات شائع کرنے کا ٹریک ریکارڈ ہے جس کی وجہ سے وہ رپورٹ کی صداقت کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔فن لینڈ کے وزیر تعلیم کے مطابق، ڈیجیٹل دنیا میں میڈیا خواندگی بنیادی شہری ہنر سمجھتا جاتا ہے اور پروپیگنڈے اور جعلی خبروں کی پہچان ہونا درحقیقت جمہوریت کے بنیادی تصور کو سمجھنا ہے۔ غلط معلومات حقائق تک پہنچنے کے نئے رجحان کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ ہاتھ سے لکھی گئی کتابوں سے لے کر پرنٹنگ پریس، اخبارات، ریڈیو، ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور حال ہی میں، جنریٹیو اے آئی ٹولز جو ٹیکسٹ، تصاویر اور ویڈیوز تیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں نے ہر خیال کو لامحدود کر دیا ہے تاہم غلط معلومات کے خلاف بہترین دفاع سے باخبر اور باشعور شہریوں کو درست فیصلہ کرنے میں سہولت ہوتی ہے۔ انفارمیشن اینڈ میڈیا لٹریسی (آئی ایم ایل) لوگوں کو معلومات پر تنقیدی طور پر کاروائی کرنے، تعصب کی نشاندہی اور غیر ارادی غلط معلومات اور جان بوجھ کر غلط معلومات کی نشاندہی کرنے کے قابل بناتا ہے، جسے ’جعلی
 خبروں‘ کے طور پر مقبول کیا جاتا ہے تاہم، بنیادی خواندگی آئی ایم ایل کی شرط ہے جس کے ساتھ ہم بحیثیت قوم جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔رواں سال فروری میں مارکیٹ ریسرچ کمپنی ایپسوس نے وائس آف امریکہ کے لئے کئے گئے ایک سروے کے نتائج شائع کئے جس کا عنوان تھا ”پاکستانی نوجوانوں کی سیاسی شرکت اور منظر نامہ۔“ سروے کے اہم نتائج میں سے ایک یہ تھا کہ جہاں زیادہ تر خواتین اپنی خبریں ٹی وی سے حاصل کرتی ہیں وہیں مرد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے حالات حاضرہ جاننے کو ترجیح دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز میں سے چھیالیس فیصد نے واٹس ایپ پر انحصار کیا، اس کے بعد چالیس فیصد فیس بک کا استعمال کرتے ہیں اور آٹھ فیصد نے ٹویٹر (ایکس) کا رخ کیا۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا استعمال کرنے والے کسی ایک صارف کا تجربہ دوسرے سے نمایاں طور پر مختلف ہو سکتا ہے۔ پاکستانی مارکیٹ کے لئے، فیس بک اُور ٹویٹر(ایکس) کا مواد غلط معلومات سے بھرا ہوا پایا گیا ہے۔انفارمیشن اینڈ میڈیا لٹریسی (آئی ایم ایل) کو سکول کی سطح پر نصاب میں علامتی طور پر شامل کیا گیا۔ میڈیا خواندگی کو ساتویں اور آٹھویں جماعت کے کمپیوٹر اسٹڈیز مضمون میں بھی ضم کر دیا گیا تاہم چونکہ تمام سرکاری سکولوں میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ تک رسائی نہ ہونے اور صرف اکیاسی فیصد بچوں کا پہلی جماعت میں سکول جانا‘ اِس عمل کی جامعیت کی راہ میں حائل رکاوٹ ہیں۔ یہ بات بھی لائق توجہ ہے کہ سکول جانے والے بچوں میں صرف چالیس فیصد ہی آٹھویں جماعت تک پہنچتے ہیں لہٰذا نصاب ِتعلیم کے ذریعے حقائق کی چھان بین اور درست معلومات
 کی پہچان کی کوششیں خاطرخواہ نتائج کی حامل نہیں ہو سکتیں۔سال 2019ءمیں یونیسکو نے ’میڈیا اور انفارمیشن لٹریسی نصاب کی ترقی کے رہنما اصولوں اور عالمی معیارات‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ شائع کی اُور کونسل آف یورپ کے نارتھ سا¶تھ سنٹر نے ’عالمی تعلیم کے لئے میڈیا لٹریسی‘ کے لئے استعمال کے لئے تیار ٹول کٹ شائع کی۔ اس ٹول کٹ میں زیادہ تر تجویز کردہ سرگرمیوں کے لئے قلم‘ کاغذ اور متضاد آرا¿ کو سمجھنے کی صلاحیت پر زور دیا گیا اگرچہ انٹرنیٹ تک رسائی درس و تدریس کے عمل کو وسیع کرتی ہے تاہم ’آئی ایم ایل‘ کی تعلیم کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر منحصر نہیں اور یہی وجہ ہے اس کے درکار ضروری عناصر کئی دہائیوں سے بہت سے ممالک میں سکول کی سطح پر نصاب کا حصہ رہے ہیں۔مغربی یورپ میں مڈل سکول کے بچوں کو مقامی اور قومی اخبارات کی خبروں کا تجزیہ کرنا سکھایا گیا اور بتایا گیا کہ کس طرح اخبارات سیاسی جھکا¶ رکھتے ہیں۔ طلبہ کو کہا گیا کہ کسی ایک دن کی شائع شدہ خبروں کا موازنہ کریں اور پھر اُنہیں یہ بھی سکھایا گیا کہ کس طرح وہ ایک جیسے بیان کردہ واقعات میں متعصب الفاظ کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔ معروضی رپورٹنگ، رائے، سنسنی خیزی اور براہ راست پروپیگنڈے کے درمیان فرق (تمیز) کرنا ضروری ہے۔ غلط معلومات یا جعلی خبروں کی وبا سے نمٹنے کے لئے ہماری ریاست کا متضاد رویہ پیچیدہ ہے کہ آج تقریباً ہر سیاسی جماعت جہاں وسیع تر معنوں میں ’پارٹی‘ کی اصطلاح استعمال کر رہی ہے تو اس طرح غلط معلومات کے سیلاب سے بچنے کے لئے تنقیدی سوچ کی صلاحیت رکھنا ضروری ہے۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا سرکاری سکولوں کے نصاب میں تنقیدی سوچ کو شامل کیا جاسکتا ہے اور اگر ایسا کیا گیا تو اِس سے آنے والی سماجی و سیاسی تبدیلی کے لئے معاشرہ تیار ہے بالخصوص اِس سے پیدا ہونے والے حالات و مضمرات کے لئے فیصلہ ساز تیار ہیں؟ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عائشہ رزاق۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)