افغانستان: تجزیہ و علاج

پاکستان کے تجزیہ کار اور سفارتی اہلکاروں کا خیال ہے کہ افغانستان امریکہ کی ترجیحات کا حصہ نہیں رہا‘جس کی منجملہ وجوہات میں دہشت گردی اور خواتین کے حقوق سے متعلق افغان حکومت کا سخت گیر مؤقف ہے۔ دوئم امریکہ کے علاقائی مفادات چین پر قابو پانے اور دہشت گردی سے پاک افغانستان کو یقینی بنانے تک محدود ہیں اور سوئم افغانستان میں منشیات کی تیاری اور دہشت گرد گروہوں کے ممکنہ طور پر دوبارہ منظم ہونے‘ نیز غربت اور بدانتظامی یورپ کے لئے خطرہ ہے جس کا بڑی تعداد میں تارکین وطن رخ کر رہے ہیں‘ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ نے افغان پالیسی کو یورپی ممالک کے حوالے (آؤٹ سورس) کر دیا ہے تاکہ وہ یوکرین اور مشرق وسطیٰ کی جنگوں، چین اور روس کی بڑھتی ہوئی ملی بھگت جیسے اہم عالمی بحرانوں پر توجہ مرکوز کر سکے۔علاقائی طور پر افغانستان کی سرحد سے متصل اور اس کے عدم استحکام سے متاثر ہونے والے ممالک آئی ای اے کی عبوری حکومت کو تسلیم کرنے کو سلامتی کی صورتحال، پاکستان کی جامع حکمت عملی، خواتین کے حقوق اور ویسٹ پلس کی پشت پناہی سے مشروط کرتے ہیں۔ پاکستان کے معاملے میں اگرچہ پاک افغان دوطرفہ تعلقات کے استحکام‘ مشترکہ تاریخ، جغرافیہ، مذہب، ثقافت اور دیگر سماجی و نفسیاتی بنیادوں جیسے مثبت اشارے موجود ہیں لیکن دہشت گردی‘ ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد کی حیثیت دینے، بین الاقوامی سرحد کے ساتھ باڑ کی تنصیب اور افغان مہاجرین جیسے امور لائق توجہ ہیں۔پاکستان میں ’کچھ‘ اسٹیک ہولڈرز کا خیال ہے کہ افغانستان کے حوالے سے اسلام آباد کا انتخاب محدود ہے اس لئے قابل عمل آپشنز کے طور پر سرحدوں کی بندش کی گئی ہے۔ افغان امور کے ماہرین کے لئے وقت کی ضرورت یہ ہے کہ سرحدوں کی بندش کی بجائے متبادل اُور آؤٹ آف باکس آپشنز اختیار کئے جائیں۔ جس کی منطق درجہ ذیل ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ تصوراتی طور پر (دوطرفہ تعلقات کا خلاصہ کئے بغیر) پاک افغان تعلقات جغرافیائی سیاسی صورتحال‘ عوامی سطح پر رابطوں اور تجارت و تجارت پر مبنی ہیں۔ دوئم سلامتی، دہشت گردی اور بڑی طاقتوں کے مفادات اور توجہ کی جغرافیائی سیاست اور ان کی دشمنی روایتی طور پر دوطرفہ تعلقات پر حاوی رہی ہے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ کسی کی پسند یا ناپسند کے باوجود عوام سے عوام کے رابطے حاوی رہیں گے۔ پاکستان کے دو صوبے، خیبرپختونخوا اور بلوچستان، افغانستان کی طرف ننگرہار، کنڑ، پکتیا اور پکتیکا سے ملے ہوئے ہیں اور سرحد پار دونوں اطراف کی آبادیوں کے درمیان سماجی، اقتصادی، ثقافتی اور مذہبی انضمام واضح ہے۔ پناہ گزینوں میں سے زیادہ تر صرف پاکستان کو اپنے گھر کے طور پر جانتے ہیں، انہوں نے کبھی افغانستان کا دورہ نہیں کیا اور پاکستان میں معاشی اور سماجی مفادات کے ساتھ، ان تعلقات کو اہمیت دیتے ہیں۔ افغانستان کی آبادی کا بڑا حصہ آج بھی ہسپتالوں، تعلیمی اداروں اور دیگر روزمرہ کی اشیائے ضروریہ کے لئے پاکستان پر انحصار کرتے ہیں۔ پشتون نسل اور کسی حد تک بلوچ قوم پرستی ان روابط کو مزید مضبوط بنائے ہوئے ہے۔ ضلع خیبر میں پی ٹی ایم کے حالیہ جرگے میں افغان جھنڈے لہرائے گئے جس پر تعجب نہیں ہونا چاہئے کیونکہ پی ٹی ایم کے نسلی قوم پرست ایجنڈے کی افغان حمایت حاصل ہے۔ افغانستان کے ساتھ تجارت افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کے تحت ہوتی ہے لیکن باقاعدہ تجارت کے علاؤہ اسمگلنگ سے دونوں طرف کی سرحدی برادریوں اور کاروباری طبقات کے مفادات جڑے ہوئے ہیں۔ افغانستان کی طلب کراچی کے تاجروں کی طرف سے پیدا کی جاتی ہے۔ یہ پیچیدہ کاروباری روابط تبدیل کرنا یا انہیں مکمل طور پر منقطع کرنا انتہائی مشکل ہے کیونکہ یہ دونوں ممالک اور عوام کے درمیان موجودہ اور مستقبل کی پالیسیوں اور تعلقات کے تعین کے پیمانے (پیرامیٹرز) بھی ہیں۔افغانستان کے ساتھ سرحد کی بندش پاک افغان تعلقات اور پاک افغان عوامی تعلقات کے لئے نقصان دہ ہے کیونکہ اِس سے دونوں اطراف کی تاجر برادری کو نقصان پہنچ رہا ہے اور اِس سے پاکستان مخالف جذبات بھڑکنے کے علاؤہ افغانستان کی سرزمین اور وسائل پاکستان کے خلاف استعمال کرنے والوں کے لئے آسانیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ افغانستان ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس سے نمٹنے میں تنازعات، الجھن اور تعاون کی کمی کے بجائے صبر، استقامت اور پالیسی میں ثابت قدمی پر مبنی نکتہئ نظر اپنانا چاہئے کیونکہ افغانستا کی پیچیدہ داخلی صورتحال اور تہہ در تہہ مسائل کا کوئی فوری حل نہیں ہے۔ افغانستان ریت کی مانند ہے جسے نہ تو مٹھی دبوچ کر رکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی اِس تپتی ہوئی ریت پر چلنا ممکن ہے۔ (بشکریہ ٹریبیون۔ تحریر انعام الحق۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)