سی او پی 29 کے نتیجے میں جہاں گلوبل ساؤتھ (عالمی جنوب) میں آب و ہوا سے منسلک ترقیاتی مالیاتی اقدامات کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز کی جانی چاہئے وہیں پائیدار زرعی سرگرمیوں کے ذریعے کاربن فٹ پرنٹ روکنے کے مربوط مقاصد کیلئے مالی وسائل (فنڈز) راغب کرنے کیلئے بھی اجتماعی اقدامات کی ضرورت‘ اپنی جگہ اہم ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کی جانب سے متوقع خطرے کے اظہار پر عالمی رہنماؤں کا موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے پرسیپشن سروے سامنے آیا ہے۔ اس حالیہ سروے کے مطابق آنے والی دہائی کیلئے شدت کے لحاظ سے پانچ ماحولیاتی اور دو سماجی خطرات والے عناصر سرفہرست ہیں جو دس خطرے والے عناصر ہیں (باقی تین خطرے والے عناصر ٹیکنالوجی یا سائبر انفوسیک سے متعلق ہیں اور کوئی بھی براہ راست معاشی خطرے کے زمرے میں نہیں آتا)۔ ان سماجی و ماحولیاتی خطرات میں انتہائی موسمی واقعات شامل ہیں جو زمین کے نظام میں اہم تبدیلیوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ یہ حیاتیاتی تنوع اور اس سے وابستہ ماحولیاتی نظام کے خاتمے سے جڑے ہوئے ہیں جو آلودگی کی بڑھتی ہوئی سطح
سے متاثر ہیں۔ ماحولیاتی اور آب و ہوا کے خطرات قدرتی وسائل کی کمی سے متعلق ہیں جبکہ زیادہ آبادی والے شہروں کی طرف قدرتی وسائل کا رخ موڑنے اور خشک علاقوں سے غیر رضاکارانہ نقل مکانی کے ساتھ معاشرتی خطرات میں وقت کے ساتھ تیزی آئے گی اور اس سے معاشرتی پولرائزیشن، بیماریوں کے پھیلاؤ اور جرائم میں بھی اضافہ ہوگا۔ بنیادی محرک یہ ہے کہ بیسویں صدی میں آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، جو دوسری جنگ عظیم کے بعد کے دور میں تیز ترین اضافہ ہے اور اس کی ایک وجہ بڑے پیمانے پر صنعت کاری بھی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی اور پاکستان کے بارے میں ”کیا اور کیوں“ کا اپنا سیاق و سباق ہے۔ سال 2050ء تک ہماری آبادی 40کروڑ سے زیادہ ہو جائے گی اور یہ واضح حقیقت ہے کہ جس کا جائزہ لیا جائے تو یہ ملک کے بڑھتے ہوئے غذائی تحفظ کے بحران سے نمٹنے کی فوری ضرورت کی نشاندہی کر رہی
ہے کیونکہ وقت کے ساتھ شہرکاری میں تیزی آئے گی اور ”نوجوانوں کی آبادی بڑھنے“ کو زیادہ غذائیت کی ضرورت ہوگی۔ واضح رہے کہ نیشنل نیوٹریشن سروے 2018ء سے پتہ چلتا ہے کہ 36.9 فیصد آبادی کو غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے۔ مزید برآں، 2022ء کے سیلاب کے دیرپا اثرات خوراک تک رسائی کے مسائل کو مزید بڑھا رہے ہیں، جو ان علاقوں میں غذائی عدم تحفظ کا باعث بننے والے پیچیدہ عوامل سے نمٹنے کیلئے جامع مداخلت کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ آبادی کا ایک بڑا حصہ پہلے ہی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے اور اگر ریاستی اداروں کی جانب سے سماجی اصلاحات پر فیصلہ کن اقدامات نہیں کئے گئے تو صورتحال مزید خراب ہونے کا اندیشہ اپنی جگہ موجود ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہونیوالے شدید موسمی واقعات جیسا کہ سیلاب اور خشک سالی کے علاؤہ پاکستان میں غذائی عدم تحفظ کے کئی دیگر عوامل بھی ہیں جو زرعی
پیداوار میں خلل ڈال رہے ہیں اور غربت میں اضافہ بھی کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں، قلت کے بجائے، غیر مؤثر وسائل کے انتظام سے پیدا ہونے والا پانی کا عدم تحفظ زرعی شعبے کیلئے بنیادی خطرہ ہے جو میٹھے پانی کا سب سے بڑا صارف ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کو درست کرنے سے متعلق کئی سمارٹ حل ہیں جن کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی بنیاد پر نافذ کیا جا سکتا ہے۔ اگر آب و ہوا سے منسلک فنڈز (مالی وسائل) کو دوبارہ متوازن کرنے اور بڑے پیمانے پر زرعی پیداوار کو پائیدار طور پر بڑھانے کیلئے بہترین طریقوں کو پیرامیٹرائز کیا جائے تو اصلاح احوال ممکن ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ آب و ہوا کی تبدیلی کا اثر طویل مدت میں ”اسٹریٹجک خطرہ“ ہے۔ اگر دانشمندانہ اقدامات کے ذریعے اس پر قابو نہ پایا گیا تو ہمیں علاقائی تنازعات اور داخلی کشمکش میں اضافے کی توقع رکھنی چاہئے۔ آب و ہوا کی تبدیلی حقیقی ہے۔ جس سے محفوظ اور صحت مند مستقبل کی کوشش ہونی چاہئے۔ پاکستان اس شعبے میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے موسمیاتی فنانس متعارف کرا سکتا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر عدنان پاشا صدیقی۔ ترجمہ ابوالحسن امام)