پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی (پی ٹی اے) نے باضابطہ طور پر عوام الناس کو آگاہ کیا ہے کہ رواں ماہ (نومبر دوہزارچوبیس) کے اختتام تک ملک بھر میں تمام غیر رجسٹرڈ ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس (وی پی این) کو مکمل طور پر بلاک کردیا جائے گا۔ سینیٹ کی کمیٹی برائے آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام کو بریفنگ دیتے ہوئے چیئرمین پی ٹی اے نے کہا کہ سافٹ وئر ہا¶سز، کال سنٹرز، بینکوں، سفارت خانوں، فری لانسرز اور دیگر پیشہ ور گروہوں سے وابستہ افراد اور تنظیمیں اپنا ’وی پی این‘ پی ٹی اے کی ویب سائٹ پر رجسٹر کروائیں اور اس مقصد کے لئے تیس نومبر کی آخری تاریخ مقرر کی گئی ہے جس کے بعد عام انٹرنیٹ صارفین کے لئے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) سمیت تمام ممنوعہ قرار دی گئیں ویب سائٹس تک رسائی ناممکن ہو جائے گی۔ انٹرنیٹ کے ذریعے سماجی رابطہ کاری کے وسائل (سوشل میڈیا) کا اگر ذمہ دارانہ استعمال کیا جاتا تو حکومت کو اس قسم کی پابندی عائد کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ پاکستان کے زیربحث موضوعات میں ’وی پی این‘ نئی بحث لئے ہوئے ہے اور اس سے متعلق تنقید یا اظہار خیال کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ بین الاقوامی صورتحال کا جائزہ لیں کہ دیگر ممالک میں ’وی پی این‘ کے استعمال سے متعلق ریاستی حکمت عملی کیا ہے۔ دو سال قبل بھارت میں نیا قانون متعارف کرایا گیا جس کے تحت بھارت میں مقیم وی پی این سروس پرووائیڈرز کو کم از کم پانچ سال تک اپنے صارفین کی سرگرمیوں کی تفصیلات (لاگز) رکھنے لازمی قرار دیا گیا ہے۔ مقامی وی پی این سروس فراہم کنندگان کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ڈیٹا شیئرنگ کرنا بھی لازم ہے۔ اسی طرح بھارتی حکومت سماج دشمن اور جرائم پیشہ عناصر کی جانب سے واٹس ایپ کے استعمال پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے۔ متحدہ عرب امارات میں وی پی این کا استعمال ممنوع نہیں لیکن ممنوعہ مواد تک رسائی کے لئے وی پی این کا استعمال اماراتی قوانین کے تحت سخت قابل سزا جرم ہے۔ متحدہ عرب امارات ٹیلی کام اینڈ ڈیجیٹل ریگولیٹری اتھارٹی کی جانب سے جاری کردہ گائیڈ لائنز کے مطابق ممنوعہ ویب سائٹس تک غیر قانونی رسائی، غیر قانونی مقاصد کے لئے آئی پیز تبدیل کرنے، کاپی رائٹ کی خلاف ورزی، ہتک عزت اور جعلی خبروں کی تشہیر کے لئے وی پی این کا استعمال سختی سے ممنوع ہے جس کے تحت قید اور کم از کم پانچ لاکھ درہم یا اس سے زائد جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے۔ یہاں تک کہ وی پی این کے ذریعے غیر قانونی واٹس ایپ آڈیو یا ویڈیو کال کرنا بھی متحدہ عرب امارات اور کچھ دیگر ممالک میں قابل سزا سائبر کرائم ہے۔ چین، برطانیہ، روس، ترکی، برازیل، جنوبی افریقہ سمیت مختلف ممالک کے انٹرنیٹ قوانین کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوا ہے کہ تکنیکی طور پر وی پی این کے استعمال پر پابندی نہیں لیکن وی پی این کے غیر قانونی استعمال کو روکنے کے لئے پابندیاں نافذ ہیں۔ دوسری جانب امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ میں وی پی این کے بلا روک ٹوک آزادانہ استعمال کی وجہ سے قومی سلامتی اور سماجی نقصان کو لاحق خطرات کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ پی ٹی اے کے حالیہ اعلان اور ’وی پی این‘ سے متعلق حکمت عملی کی وجہ سے حقیقی خدشات پیدا ہوئے ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے کس ایکٹ کے تحت پی ٹی اے وی پی این کو محدود کرنے کا مجاز ہے اور تیس نومبر کے بعد غیر رجسٹرڈ وی پی این استعمال کرنے پر کیا جرمانہ ہوگا؟ میرے خیال میں ہمارے حکام نے اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہ لے کر اور وی پی این کے مسئلے کے بارے میں بھرپور عوامی بیداری مہم نہ چلا کر بہت بڑی غلطی کی ہے۔ پی ٹی اے کو فوری طور پر تیس نومبر کی ڈیڈ لائن پر نظر ثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ایک جمہوری طور پر ذمہ دار ریاست ہونے کے ناطے پارلیمنٹ میں قانون سازی کے بغیر ایسی کوئی کاروائی اور پابندیاں عائد کرنے کی صورت مہم جوئی نہیں کی جانی چاہئے‘ جس سے پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی متاثر ہو۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر رامیش کمار وانکوانی۔ ترجمہ ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سائبرسکیورٹی: نئے محاذ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام