انسداد پولیو جدوجہد

انسداد پولیو کی عالمی کوششیں تین دہائیوں سے جاری ہیں اور پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں وائلڈ پولیو وائرس (ڈبلیو پی وی) کا خطرہ کم نہیں ہو رہا۔ رواں برس 39 بچے پولیو سے متاثر ہوئے ہیں اور 71 اضلاع سے جب سیوریج کے نمونے اکٹھا کئے گئے تو ان میں سے 400 پولیو کا وائرس پایا گیا۔ پولیو وائرس کی یہ گردش بچوں کی صحت کے لئے سنگین خطرہ ہے۔ پاکستان میں پولیو کے خاتمے کی کوششوں میں جانی قربانیاں بھی شامل ہیں لیکن پولیو کا خاتمہ نہیں ہو رہا۔سال دوہزارسترہ میں جب ملک میں صرف آٹھ پولیو کیس سامنے آئے اور پھر دوہزار اکیس میں صرف ایک بچہ پولیو سے متاثر ہوا تب امید ہوئی تھی کہ پاکستان سے جلد پولیو کا خاتمہ ہو جائے گا۔ سال 2021-22 کے پندرہ مہینے پولیو کے بغیر گزر گئے لیکن پھر بھی اِس بیماری کا خاتمہ نہیں ہو سکا کیونکہ پولیو چالاک ہے اور یہ تمام تر کوششوں کے باوجود بھی زندہ رہنے میں کامیاب رہا ہے اور اِسے پھیلنے کے لئے جنوبی خیبر پختونخوا کے علاقے میسر ہیں۔پاکستان میں پولیو کا موجودہ وائرس 2023 کی دوسری ششماہی میں افغانستان سے آیا۔ جس نے دیکھتے ہی دیکھتے کراچی، کوئٹہ بلاک اور پشاور کو دوبارہ متاثر کیا۔ گزشتہ دو برس سے پولیو کی روک تھام کی کوششوں کی ناکامی کی وجوہات اپنی جگہ لیکن انسداد پولیو مہمات کے درمیان کئی حوصلہ افز مواقع بھی آئے۔ خاص طور پر جب طویل عرصے تک وائرس کی موجودگی کی  نشاندہی نہیں ہوتی تو یہ اچانک نمودار ہو جاتا ہے اور اِس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جن علاقوں میں اِسے ختم تصور کرتے ہوئے انسداد پولیو مہمات نہیں چلائی جاتیں یہ وہیں سر اٹھاتا ہے۔ دوسری اہم وجہ یہ بھی ہے کہ انسداد پولیو مہمات میں حصہ لینے والا طبی عملہ اور کیمونٹی پولیو کے خلاف کوششیں سست کر دیتی ہیں۔ ایسی اطلاعات بھی ملی ہیں کہ پولیو کے جعلی ٹیکے لگائے گئے اور غلط اعدادوشمار مرتب کئے گئے۔ جنوبی خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے کئی علاقے ایسے ہیں جہاں آج بھی پولیو کے خلاف گمراہ کن نظریات پر یقین کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو پولیو قطرے پلانے سے گریز(انکار)کرتے ہیں لہٰذا اِس معاملے کو ازسرنو توجہ دینے کی ضرورت ہے جس میں پولیو سے بچاؤ کی ادویات کے خلاف پائے جانے والے نظریات (پروپیگنڈہ) روکنے کے لئے اقدامات ہونے چاہیئں‘خوش آئند ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے انسداد پولیو مہمات کو کامیاب بنانے کے لئے ذاتی طور پر لقدامات کرتے ہوئے حکومت کی جانب سے جوابدہ ایک سینئر افسر کو نگرانی کے لئے مقرر کیا گیا جبکہ وزیراعظم نے راقم الحروف کو پولیو کے خاتمے کے لئے اپنا فوکل پرسن مقرر کیا۔ منظم طریقے سے آگے بڑھتے ہوئے صوبوں کے ساتھ مل کر پولیو کی موجودہ لہر کا فرانزک تجزیہ کیا گیا تاکہ اس کے محرکات کی نشاندہی کی جا سکے اور زمینی رکاوٹوں کا حل نکالا جا سکے۔ ون ٹیم نکتہ نظر کو بحال کرتے ہوئے، انسداد پولیو پروگرام کو ہنگامی بنیادوں پر دوبارہ ترتیب دیا گیا ہے اور اب فیصلہ سازی سائنسی بنیادوں پر اور اعداد و شمار کے ذریعہ کی جاتی ہے اور اِس سلسلے میں صوبوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ رابطہ بحال کیا گیا ہے جس میں کل  وقتی (رئیل ٹائم)نگرانی، انتظام اور احتساب پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔پولیو کا خاتمہ سیاسی تقسیم سے بالاتر ہو کر قومی ترجیحی ایجنڈا ہے اور یہ سیاسی وابستگی سے بالاتر ہدف ہے۔ وفاقی حکومت نے صوبائی ٹاسک فورس کے ذریعے صوبوں کی اعلی ترین سیاسی اور انتظامی قیادت کو اِس کوشش میں شامل کر رکھا ہے لیکن انسداد پولیو مہمات میں کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ ماضی کی ناکامیوں پر نظر کی جائے۔ اِس سلسلے میں جامع فریم ورک (لائحہ عمل)تیار کیا گیا ہے۔ تقریبا تین سال کے وقفے کے بعد نیشنل ایمرجنسی ایکشن پلان 2024-25ء(این ای اے پی)کو حتمی شکل دی گئی جو ڈبلیو پی وی ٹرانسمیشن کو روکنے کے لئے قومی حکمت عملی کا خاکہ پیش کرتی ہے اگرچہ تمام کمزور بچوں کو بار بار ٹیکے لگانے کے ذریعے وسیع پیمانے پر مدافعتی فرق کو پر کرنا کامیابی کی کلید ہے لیکن درپیش چیلنجوں کے لئے مقامی طور پر تیار کردہ حل کو نافذ کرنے، شراکت داری کو وسعت دینے اور پولیو سے انکار والے علاقوں کو توجہ دینے کو حکمت عملی میں شامل کیا گیا ہے۔ اس روڈ میپ (لائحہ عمل)پر عمل درآمد جولائی اور اگست میں شروع ہوا، جہاں پروگرام کے تمام اہم اجز کو دوبارہ ترتیب دینے، حکمت عملی میں پائی جانے والی کمی بیشی کی نشاندہی اِسے پر کرنے اور انہیں ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پولیو وائرس کی نگرانی اور اِس کی نقل و حرکت کو روکنے کے لئے بھی الگ سے کوششیں ہو رہی ہیں۔ ستمبر میں روڈ میپ کے دوسرے مرحلے پر عمل درآمد کے آغاز کے ساتھ انسداد پولیو حکمت حکمت عملی کا نئے سرے سے آغاز کیا گیا جس میں بڑے پیمانے پر ذیلی قومی پولیو مہم چلائی گئی جو 115 اضلاع میں 3کروڑ30 لاکھ سے زائد بچوں تک پہنچی۔ رواں برس (دوہزارچوبیس کے ماہء دسمبر) کے آخر تک آبادی میں قوت مدافعت پیدا کرنے اور محدود علاقوں میں وائرس پر قابو پانے کے لئے مزید دو اعلیٰ معیار کی مہمات چلائی جائیں گی جن کے مقاصد میں یہ بھی شامل ہے کہ مقامی اور سرحد پار افغانستان سے پولیو کی آمدورفت روکی جائے۔  انسداد پولیو کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ہر بچے کے لئے حفاظتی قطرے پلانے کو یقینی بنایا جائے گا۔ اِس موقع پر ان بہادر پولیو ورکز کو بھی خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے جنہوں نے ایک عالمی و قومی مشن کی کامیابی کے لئے اپنی جان کی پرواہ بھی نہیں کی اور خطرات کو خاطر میں نہیں لائے۔ پولیو سے پاک پاکستان ہی ہمارے محفوظ مستقبل کا ضامن اور قومی ذمہ داری ہے جسے پورا کرنے کے لئے ہر پاکستانی کو بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر عائشہ رضا فاروق۔ ترجمہ ابوالحسن اِمام)