شعبہ ئ  تعلیم: اصلاحات و تصورات

پاکستان کا تعلیمی نظام اور اس سے حاصل ہونے والے نتائج کا اگر عالمی سطح پر موازنہ کیا جائے تو دنیا کے بدترین اعداد وشمار سامنے آتے ہیں۔ پاکستان ایسا ملک ہے جہاں دو کروڑ ساٹھ لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے۔ جو لوگ اسکول جاتے بھی ہیں تو ان کی اکثریت اکیسویں صدی کیلئے درکار ضروری مہارتیں نہیں سیکھ پا رہے‘ اس کی بڑی وجہ ناقص گورننس‘ بڑے پیمانے پر بدعنوانی‘ میرٹ کو مکمل طور پر نظر انداز کرنا اور احتساب کا فقدان ہے۔ ناقص تعلیمی نظام کی وجہ سے غیر معیاری ہیومن ریسورس مل رہا ہے جس کی وجہ سے ملک کی معاشی ترقی متاثر ہو رہی ہے اور ناخواندگی پاکستان کی ترقی کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹ ہے اگرچہ یہ مسئلہ کئی دہائیوں سے قومی قیادت کی طرف سے تسلیم کیا جا رہا ہے لیکن بدقسمتی سے‘ پاکستان اپنے تعلیمی نظام کی گورننس اور مینجمنٹ میں سنگین کمزوریوں کو دور کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ درس و تدریس کے عمل میں اس وقت تک اصلاح نہیں ہو سکتی جب تک تجسس کو تعلیمی نظام کا حصہ نہیں بنایا جاتا۔ ایک ایسا تعلیمی نظام متعارف کرنے کی ضرورت ہے جس میں طلبہ کو سوال کرنے سے نہ روکا جائے‘ جس میں موضوعات کے بارے میں زیادہ کچھ جاننے کی لگن اور گہرائی سے سوچنے کی ترغیب دی جاتی ہو‘ صرف امتحانات پاس کرنے کیلئے اسباق و حقائق کو یاد کرنے کے بجائے‘ حقیقی طور پر سیکھنے والا مواد نصاب میں شامل ہونا چاہئے‘ نصاب کا ہر مضمون میں مطابقت اور معنی پر مبنی ہو۔ یہ تصور پاکستان میں تعلیم کی موجودہ صورتحال کے بالکل برعکس ہے کیونکہ ہمارے ہاں رٹے کی عادت غالب ہے‘ جس سے طالب علم کی حقیقی تفہیم اور ذاتی ترقی کے امکانات محدود ہو جاتے ہیں۔ بامعنی تعلیم کیلئے دل میں تجسس ہونا چاہئے‘ سیکھنے‘ جاننے اور سمجھنے کی خواہش تعلیم کے عمل کو حقیقی بناتی ہے۔ طالب علموں کو سوالات پوچھنے اور جوابات تلاش کرنے کی ترغیب دینا انہیں اپنی تعلیم کو قابل عمل بنانے کے قابل بناتی ہے۔ تنقیدی سوچ طالب علموں کو معلومات کا تجزیہ کرنے‘ دلائل کا جائزہ لینے اور باخبر فیصلے کرنے میں آسانی فراہم کرتی ہے۔ ایڈم گرانٹ نے اپنی کتاب ’تھنک اگین‘ میں تجویز کردہ سائنسدان ذہنیت کو اپنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے جسے انہوں نے تعلیمی ماڈل کیلئے ضروری قرار دیا ہے۔ طالب علموں کو سوالات پوچھنے اور کلاس روم سے باہر معلومات حاصل کرنے کی ترغیب دینے سے فعال رویئے کو فروغ ملتا ہے۔ طلبہ کے درمیان تعاون کو فروغ دینے سے معاشرتی سطح پر بہتری لانے کیلئے کارآمد مہارتیں پیدا ہوتی ہیں اور اس سے سیکھنے سکھانے والی کمیونٹی پروان چڑھتی ہے جیسا کہ ہم ترقی یافتہ ممالک میں دیکھتے ہیں۔ سیکھنے کے تنقیدی آنکھ اور ایک کھلا ذہن درکار ہوتا ہے۔ تنقیدی سوچ میں خیالات کے مختلف زاوئیوں پر غور کیا جاتا ہے اور معلومات پر اس وقت تک یقین نہیں کیا جاتا جب تک اس کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہ ہوجائے۔ اگر علم طاقت ہے‘ تو کسی نہ جاننے والی چیز کو جاننا حکمت ہوتی ہے۔ اس ویژن کو زندہ کرنے کیلئے‘ ہمیں تعلیم کی فراہمی کے موجودہ طریقہئ کار کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے‘ سیکھنے کے عمل کو دلچسپ اور انٹرایکٹو بنانا طلبہ میں فطری تجسس کو جلا بخشتا ہے۔ کہانی سنانے‘ کھیلوں اور ہم نصابی سرگرمیوں کو شامل کرنا اسباق کو زیادہ دلچسپ بناتا ہے۔ مثال کے طور پر‘ سائنس کی کلاسوں میں تجربات کے ذریعے طلبہ سائنسی اصولوں کو براہ راست دریافت کرتے ہیں۔ ادب میں کردار ادا کرنے کے ذریعے کرداروں کے محرکات کو تلاش کرنے سے بھی تفہیم گہری ہوتی ہے۔ عملی تدریس سے متعلق یہ نکتہئ نظر نہ صرف سیکھنے کے عمل کو خوشگوار بناتا ہے بلکہ طالب علموں کو حقیقی دلچسپی کے علاوہ دیگر موضوعات کو گہرائی سے جاننے کی ترغیب بھی دیتا ہے۔ درس و تدریس کی بہتری اور اصلاح اس وقت ممکن نہیں جب تک روایتی امتحانات کے طریقہئ کار کو تبدیل نہ کیا جائے۔ پروجیکٹس‘ پریزنٹیشنز‘ اور پورٹ فولیوز طلبہ کو تخلیقی اور جامع طور پر علم سے لیس کرتے ہیں اور ان کی عملیت کے مظاہرہ میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ طلبہ کو یہ تصور سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ علم کا حصول ایک سفر ہے‘ منزل نہیں۔ تجسس‘ اور تنقیدی سوچ تعلیم کے ازسرنو تصور کرنے کیلئے نہ صرف مثالی نظریہ ہے بلکہ اکیسویں صدی میں مستقبل کے رہنماؤں کو تیار کرنے کیلئے ضروری ارتقائی عمل ہے۔ ان خصوصیات کو پروان چڑھا کر اور ایڈم گرانٹ جیسے فکری رہنماؤں سے ترغیب حاصل کرکے‘ ہم طالب علموں کو ایک پیچیدہ اور متحرک دنیا کیلئے درکار مہارتوں سے لیس کر سکتے ہیں۔ اس تبدیلی کو لانے کیلئے اساتذہ‘ طلبہ‘ والدین اور پالیسی سازوں کی اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ سیکھنے‘ ٹیکنالوجی کو مربوط کرنے اور ضروری مہارتوں کو فروغ دینے کیلئے اس نئے نکتہئ نظر کو اپناکر‘ ہم ایک ایسا تعلیمی نظام تشکیل دے سکتے ہیں جو نہ صرف علم فراہم کرتا ہو بلکہ ساری زندگی سیکھنے کا جذبہ بھی پیدا کرتا ہو۔ آئیے ہم مل کر مستقبل کی تعمیر کا عہد کریں۔ ایک ایسا مستقبل جہاں تعلیم طلبہ کو آزادانہ طور پر سوچنے کی ترغیب دے (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر سید اسد علی شاہ۔ ترجمہ ابوالحسن امام)