برطانیہ: شاہی لوازمات۔۔۔۔

برطانیہ میں بادشاہت اور جمہوریت ساتھ ساتھ چل رہے ہیں اور دونوں ہی کے لطائف الگ الگ ہیں مثلاً ملکہ الزبتھ دوم کو دیکھیں کہ جن کے نام کے ساتھ پہلے ہی تقریباً پچیس خطابات لگے ہوئے ہیں اور ان میں ’ونڈسر کی بیوہ‘ کا ایک سوگوار لقب بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ یہ لقب آخری مرتبہ ملکہ وکٹوریہ کیلئے استعمال ہوا تھا جب دسمبر 1861ء میں ان کے شوہر شہزادہ البرٹ انتقال کرگئے تھے۔ شہزادہ فلپ کی طرح البرٹ کا انتقال بھی ونڈسر کے محل میں ہی ہوا تھا تاہم شہزادہ فلپ کے برعکس البرٹ نے ملکہ کے شوہر کی حیثیت سے ’پرنس کونسورٹ‘ کا خطاب اختیار کیا۔ شہزادہ البرٹ (جو ایک معمولی جرمن شہزادے تھے) کسی حد تک اپنی جوان اہلیہ یعنی ملکہ کے ساتھ برابری چاہتے تھے لیکن شہزادہ فلپ کے معاملے میں صورتحال مختلف رہی۔ انہوں نے ملکہ الزبتھ سے اس وقت شادی کی تھی جب وہ ملکہ نہیں بنی تھیں۔ اس کے بعد 1953ء میں ملکہ کی تاج پوشی کے وقت شہزادہ فلپ نے ملکہ کے دل و جان سے وفادار رہنے کا حلف لیا اور پھر اس حلف پر عمل بھی کیا۔ ملکہ کے ساتھی کی حیثیت سے فلپ نے ’ہمیشہ ملکہ کا ساتھ دینے کو ہی اپنا اوّلین فرض سمجھا۔‘ شہزادہ فلپ کے والد کے خاندان کا تعلق یونان اور ڈنمارک سے جبکہ والدہ کے خاندان کا تعلق جرمنی اور برطانیہ سے تھا۔ ان کے تین استاد رہے۔ پہلے ڈاکٹر ہان‘ جو گارڈنسٹن کی نگرانی کرتے تھے۔ یہ وہ سکول تھا ’جہاں امیروں کے بچوں کو استحقاق کے احساس سے آزاد کرنے کے لئے بھیجا جاتا تھا۔ ان کے دوسرے معلم ان کے انکل لارڈ لوئیس ماؤنٹ بیٹن تھے‘ جنہوں نے ان کو بادشاہت کے اطوار سکھائے۔ شہزادہ فلپ کا تیسرا استاد ملکہ کی ’طاقت اور بھروسے‘ کی حیثیت سے گزارے گئے 73برس کا تجربہ تھا۔ اس تمام عرصے کے دوران شہزادہ فلپ عوامی خدمات میں بھی نمایاں رہے۔ انہوں نے 780 اداروں کی سرپرستی کی۔ پانچ ہزار سے زائد تقاریر کیں اور بے شمار تختیوں کی نقاب کشائی کی۔ (وہ کہتے تھے کہ دنیا میں تختیوں کی نقاب کشائی کا سب سے زیادہ تجربہ انہیں ہی ہے)۔ انہوں نے ملک میں اور بیرونِ ملک انفرادی طور پر بائیس ہزار دوسو سے زائد ملاقاتیں کیں جبکہ ملکہ کے ساتھ کی جانے والی ملاقاتیں اس کے علاوہ ہیں۔ انہوں نے سوویت یونین کا دورہ کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا حالانکہ ان کا کہنا تھا کہ ’ان کمینوں نے میرے آدھے خاندان کو قتل کیا تھا‘ یوں انہوں نے ذاتی جذبات پر سرکاری فرائض کو ترجیح دی۔ ان کے شروع کردہ دو منصوبوں کی وجہ سے وہ اپنی مقبولیت کو شاہی خاندان سے باہر بھی استعمال کرنے کے قابل ہوئے۔ یہ منصوبے 1956ء میں شروع ہونے والا دی ڈیوک آف ایڈنبرا ایوارڈ اور ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) ہیں۔ یہاں یاد رہے کہ شہزادہ 1981ء سے 1996ء تک ڈبلیو ڈبلیو ایف کے صدر بھی رہے۔ ان دونوں ہی منصوبوں نے پاکستان پر جو اثرات چھوڑے ہیں اس کا درست ادراک ہماری حکومتوں کو بھی نہیں ہے۔پاکستان میں بہت ہی کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہوگی کہ شہزادہ فلپ کے بعد سید بابر علی ڈبلیو ڈبلیو ایف انٹرنیشنل کے صدر بنے۔ انہوں نے کئی مواقع پر شہزادہ فلپ کی میزبانی کی ہے مثلاً وہ انہیں 1994ء میں ہنزہ اور 1997ء میں چترال لے گئے۔ صرف قریبی افراد ہی یہ بتا سکتے ہیں کہ میر آف ہنزہ کے محل میں شہزادہ فلپ ناشتے سے کتراتے رہے کیونکہ انہوں نے باورچی خانے میں صفائی ستھرائی کی ناقص حالت دیکھ لی تھی۔ اسی طرح لاہور میں ڈبلیو ڈبلیو ایف کے لئے فنڈ جمع کرنے کی خاطر ہونے والی نیلامی میں شہزادے نے تجویز دی کہ اس سے پہلے کہ کامیاب خریدار اپنا ذہن بدلیں‘ خریدار سے بولی کی رقم حاصل کرلی جائے۔ انہوں نے بہت ہی لطیف انداز میں شاہی ذخائر میں موجود نوآبادیاتی دور کی شرمناک باقیات کو تسلیم کیا۔ ایک موقع پر ونڈسر محل کے ایک شوکیس میں رکھے ٹیپو سلطان کے لباس کو دکھاتے ہوئے انہوں نے اپنے مہمان کے سامنے تسلیم کیا کہ یہ تاریخی نوادر انہیں ’دیئے‘ نہیں گئے بلکہ فتح کی علامت کے طور پر ’حاصل‘ کئے گئے ہیں۔شہزادہ فلپ کو مطالعے کا شوق تھا اسی وجہ سے وہ جہاز کی لینڈنگ سے قبل ہی رابرٹسن کی کتاب دی ریلیف آف چترال (1898ء) ختم کرنا چاہتے تھے۔ انہیں ایڈورڈ لیئر کی یہ سطور یاد بھی تھیں اور وہ انہیں دہراتے بھی تھے کہ ’آخر اخوند آف سوات کون‘ کیوں‘ کیا اور کونسا ہے؟‘ مرحوم سے متعلق لکھی جانے والی باتوں میں ان کی چھوٹی چھوٹی خامیوں کا ذکر ہے لیکن وہ ایک ایسے شخص کی مکمل تصویر پیش نہیں کرتیں جس کی زبان اس کے اردگرد موجود رسمی پروٹوکول سے زیادہ تیز چلتی تھی‘ جو اس سے ملاقات کے لئے آنے والے لاکھوں افراد سے دوستانہ طریقے سے ملتا تھا اور جس نے شاہی معمولات کو آسان اور دلچسپ ظاہر کیا تھا۔ وقت کے ساتھ مؤرخین موجودہ دور کی جدید بادشاہت میں شہزادہ فلپ کی کاوشوں کو ضرور سراہیں گے۔ انگریزوں نے پرنس کونسورٹ البرٹ کی دور اندیشی اور کاوشوں کو تسلیم کرنے میں ایک صدی لگادی تھی تاہم شہزادہ فلپ کی شخصیت اس بات کی متقاضی ہے کہ ان کی کاوشوں کو جلد ہی تسلیم کرلیا جائے۔ شہزادہ فلپ نے اپنے پیچھے ونڈسر کے محل میں ایک بیوہ چھوڑی ہے جو اس طرح ان کا سوگ نہیں منائے گی کہ جس طرح ملکہ وکٹوریہ نے اپنے ’ناقابلِ تلافی‘ البرٹ کا سوگ منایا تھا۔ ملکہ وکٹوریہ چالیس سال بعد خود اپنی موت تک ماتمی لباس ہی پہنتی رہیں۔ وہ ہر روز البرٹ کے کپڑے نکلواتیں جیسے کہ وہ دوبارہ اٹھ بیٹھیں گے۔ ملکہ وکٹوریا نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ ان کی اولادوں میں تمام مرد اپنے دیگر ناموں کے ساتھ ’البرٹ‘ بھی لگائیں گے‘ یہاں تک کہ ان کے روحانی بچوں کی اولادیں بھی اس حکم سے محفوظ نہیں تھیں۔ ان کی خدمت میں رہنے والے مہاراجہ دلیپ سنگھ نے بھی اپنے دو بیٹوں کا نام وکٹر البرٹ اور البرٹ ایڈورڈ رکھا تھا۔ ملکہ الزبتھ دوم اپنے شوہر کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ونڈسر کی دیواروں کے پیچھے نہیں رہیں گی (چاہے کورونا وبا رہے یا نہیں) بلکہ وہ اپنے شوہر کی ہی طرح پوری تن دہی‘ وقار اور دیانتداری کے ساتھ اپنے فرائض کی انجام دہی جاری رکھیں گی۔(بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ایف ایس اعجازالدین۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)