کراچی کے ساحلی علاقے پر بارہ منزلہ رہائشی عمارت ”چیمپلن ٹاورز ساؤتھ‘‘رات ڈیڑھ بجے منہدم ہوا۔ سرف سائیڈ میں واقع یہ عمارت ایک ایسے رقبے پر قائم تھی جسے سمندر کی بھرائی کرکے بنایا گیا ہے اور اس علاقے میں ایسی کئی دیگر عمارتیں بھی موجود ہیں۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ عمارت گرنے سے پہلے انہوں نے گڑگڑاہٹ سنی‘ عمارت کا درمیانی حصہ پہلے زمیں بوس ہوا اور پھر تقریباً تیس سیکنڈ بعد دوسرا حصہ بھی گرگیا۔ یہ تیس سیکنڈ ان لوگوں کے لئے بہت ہی دردناک ہوں گے جو درمیانی حصے کے گرنے سے جاگ چکے ہوں گے۔ درمیانی حصے میں موجود لوگوں کو تو شاید کچھ معلوم بھی نہ ہوا ہو لیکن بعد میں گرنے والے حصے کے رہائشیوں کو حالات کی حقیقت کا علم ہوچکا ہوگا۔ ریسکیو اہلکاروں نے ملبے میں دبے افراد کی تلاش بھی شروع کردی ہے لیکن اس کوشش سے کچھ زیادہ امیدیں وابستہ نہیں ہیں۔ یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ سال دوہزاراٹھارہ میں تیار ہونے والی ایک حکومتی رپورٹ میں عمارت کو ہونے والے سنگین نقصانات کا ذکر کیا گیا تھا۔ عمارت کے نیچے بنے پارکنگ لاٹ میں عمارت کا وزن برداشت کرنے والی بنیادوں میں دراڑیں موجود تھیں۔ عمارت کا سوئمنگ پول لیک کررہا تھا اور پانی نیچے موجود پارکنگ لاٹ کے ستونوں میں رس رہا تھا۔ اس حوالے سے مقدمات دائر کئے گئے اور میامی ڈیڈ کاؤنٹی‘ جہاں سرف سائیڈ واقع ہے اور وفاقی حکومت نے اس حوالے سے متعلق تحقیقات کی منصوبہ بندی کرلی ہے۔ نیشنل پبلک ریڈیو کے مطابق اس حوالے سے ہونے والی تحقیقات کئی برس تک جاری رہ سکتی ہیں۔ یہ بات ناممکن ہے کہ اب اس بدقسمت عمارت کے بارے میں ہونے والی کوریج دیکھ رہے ہوں اور آپ یہ سوچ کر کانپ نہ جائیں کہ کراچی کے ساحلی علاقوں میں قائم اسی قسم کی کثیر المنزلہ عمارتوں کی کیا حالت ہوگی؟ پاکستان میں عمارتوں کا گرنا عمومی واقعات میں شمار ہونے لگا ہے۔ ان میں اکثر واقعات ان غریب کچی آبادیوں میں ہوتے ہیں جہاں ٹھیکیدار ناقص تعمیراتی سامان سے کئی منزلہ عمارتیں بنادیتے ہیں۔ یہ سب کچھ کرتے ہوئے عوامی تحفظ کے لئے بنے کسی قانون پر توجہ نہیں دی جاتی۔ گزشتہ سال سکھر میں ایک عمارت زمیں بوس ہوئی‘ اس کے بعد کراچی میں لیاری کے علاقے میں پانچ منزلہ عمارت گرگئی۔ گزشتہ سال ہونے والی مون سون بارشوں میں بھی عمارتیں گرنے کے واقعات سامنے آئے جس میں سے ایک میں دس افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ اس سال بھی بارشوں کی اسی شدت کی پیش گوئی کی جارہی ہے لیکن سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی مخدوش عمارتوں کی نشاندہی کرنے اور انہیں خالی کروانے کے لئے خاطر خواہ کام نہیں کرسکی ہے۔ اس ضمن میں نہ ہی کوئی تیاری کی گئی ہے اور نہ ہی کوئی انسپیکشن۔ مزید یہ کہ کراچی کی ساحلی پٹی پر کئی کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر جاری ہے۔ گزشتہ سال ہی ’ری کلیمنگ کراچیز ایج‘ کے نام سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں ڈی ایچ اے آٹھویں فیز سمیت سمندر سے حاصل کی گئی زمین پر تعمیر ہونے والی عمارتوں میں موجود مسائل کی نشاندہی کی گئی تھی۔ فلوریڈا میں گرنے والی عمارت کی طرح ہی یہاں کئی کثیر المنزلہ عمارتیں موجود ہیں جن کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی گئی ہے۔ اس حوالے سے کوئی وضاحت نہیں ہے کہ ان کی منصوبہ بندی میں کن معیارات کو مدِنظر رکھا گیا ہے اور عمارت کی تعمیر کس بہتر انداز میں کی گئی ہے۔ یہ بات بھی غیر واضح ہے کہ کیا مستقبل میں ان نئی اور پرانی عمارتوں کی جانچ پڑتال ہوتی رہے گی تاکہ اس بات کا تعین کیا جاتا رہے کہ یہ عمارتیں قابلِ رہائش ہیں یا نہیں۔ اس حوالے سے بھی کم معلومات دستیاب ہیں کہ کراچی کے ساحل پر ان فلک بوس عمارتوں کے نقشہ ساز اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کیا کررہے ہیں کہ یہ عمارتیں مستقبل میں سمندر برد نہیں ہوں گی کیونکہ جو عمارتیں سمندر کنارے تعمیر ہوتی ہیں انہیں ہوا‘ سمندر اور ریت سے مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔ دبئی میں تعمیر ہونے والی عمارتوں (جنہیں دیکھ کر یہاں عمارتیں بنائی جارہی ہیں) کی انتظامیہ کے پاس اتنے وسائل ہوتے ہیں کہ سمندری پانی سے ہونے والے نقصانات کی مرمت کرواسکیں اور عمارت کے ڈھانچے کو بہتر حالت میں رکھ سکیں۔ پاکستانیوں کو بچت کی عادت ہوتی ہے۔ امکان یہی ہے کہ یہ کام ہم ساحلی علاقوں میں ہونے والی تعمیرات میں بھی کریں گے۔ اس کے نتیجے میں جو عمارتیں تعمیر ہوں گی وہ کچھ غیر مستحکم اور تھوڑی متزلزل ہوں گی۔ فلوریڈا کے سرف سائیڈ میں واقع چیمپلن ٹاورز اور کونڈومینیئمس کے لئے اب بہت دیر ہوچکی ہے۔ عمارت کا باقی ماندہ حصہ جو اب بھی کھڑا ہے خوفناک منظر دکھا رہا ہے۔ اس میں نظر آنے والے ایک بیڈروم میں بنک بیڈ”تکیے“ چادریں اور دفتری کرسی نظر آرہی ہے۔ ریسکیو اہلکاروں کو ملبے میں سے جو کھلونے مل رہے ہیں وہ انہیں ایک مقام پر ان بچوں کی یادگار کے طور پر جمع کر رہے ہیں جو اس حادثے میں جاں بحق ہوئے۔ یہ ایک مشکل کام ہے۔ عمارت گرنے کے اگلے ہی دن بارش ہوئی اور ہر چیز بھیگ گئی یوں ملبے میں تلاش کا کام مزید مشکل ہوگیا۔ اس کے بعد حادثے کی جگہ پر آگ بھڑک اٹھی جس سے وہ مقام دھوئیں سے بھر گیا اور ملبے میں کسی کے زندہ بچ جانے کے امکانات مزید کم ہوگئے۔ سرف سائیڈ میں ہونے والا حادثہ کراچی کی ساحلی پٹی پر تعمیرات کرنے والوں کے لئے ایک تنبیہہ ہے۔ اگر سندھ حکومت‘ ڈی ایچ اے یا کسی اور ادارے کے پاس ان عمارتوں کی تعمیر سے قبل کے کوئی منصوبے موجود ہیں تو انہیں ان منصوبوں کو پبلک کرنا چاہئے تاکہ عوام بھی انہیں دیکھ سکیں۔ یہ بات بھی ضروری ہے کہ عمارتوں میں ہنگامی حالات میں باہر نکلنے کے ایسے راستے موجود ہوں جنہیں رہائشی کسی زلزلے یا آگ لگنے کی صورت میں آسانی سے استعمال کرسکیں۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: رافعہ ذکریا۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)