تبدیلی کی خواہش۔۔۔۔۔

اٹھارہ مارچ کے روز نیشنل سیکورٹی ڈویژن کے تحت مباحثہ ہوا۔ پہلی مرتبہ ہوئے اپنی نوعیت کے اِس نہایت ہی اہم مباحثے کی ایک نشست سے خطاب کرتے ہوئے پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ ”ہماری خواہش ہے کہ علاقائی سیاست کو ایک مختلف نظریئے یعنی علاقائی اقتصادیات کے تناظر سے دیکھا جائے۔“ اور یہی بنیادی و اہم ترین بات ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی لیکن اِس بات کا مطلب کیا ہے؟ اگر روس سے تعلق رکھنے والے دفاعی امور کے ماہر کلازویٹز (Clausewitz) سے پوچھا جائے تو وہ جنرل باجوہ کے اِس بیان پر کہیں گے کہ جنرل باجوہ جنگ کرنے کی منطق کی بجائے اقتصادی امور کی لغت جانب متوجہ ہیں۔ شاید جنرل باجوہ چاہتے ہیں کہ پاکستان تنازعات میں اُلجھنے کی بجائے خطے کے ممالک اور عالمی سطح پر اِقتصادیات (تجارتی روابط) اِستوار کرے۔ علاقائی اقتصادی تعلقات (geo-economics) کسے کہتے ہیں؟ جنگ کے متبادل ذرائع کے حوالے سے کتاب کے مصنفین رابرٹ بلیک ویل (Robert Blackwell) اور جنیفر ہیراس (Jennifer Harris) نے لکھا ہے کہ ”کوئی ملک اپنی اقتصادیات کا استعمال کرتے ہوئے بھی قومی مفادات کا تحفظ کر سکتا ہے۔“ پاکستان کے بھی قومی مفادات ہیں جن کے دفاع کی ضرورت ہے اور اب تک کی حکمت عملی میں اِن قومی مفادات کا تحفظ بذریعہ دفاعی طاقت کیا جاتا رہا ہے جبکہ تبدیل شدہ عالمی حالات کے تناظر اور رجحانات میں وہ ممالک زیادہ کامیاب دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے اپنے قومی مفادات کو بذریعہ اقتصادیات تحفظ کیا ہے۔ پاکستان کے قومی مفادات کے تحفظ کیلئے بھی ایک متبادل حکمت عملی اختیار کرنا پڑے گی جس کا ایک جز روائتی دفاعی صلاحیت جبکہ دوسرا جز مستقبل قریب میں ممالک سے اقتصادی تعلقات ہوں گے؟دنیا کے بہت سے ممالک ایسے ہیں جو اپنے قومی مفادات کا سوفیصد تحفظ خالصتاً اقتصادی حکمت عملیوں سے کرتے ہیں جبکہ پاکستان ایسا نہیں کرتا۔ دنیا کے بہت سے ملاک اپنی قومی سلامتی سے متعلق حکمت عملیاں مرتب کرتے ہیں اُور اِن حکمت عملیوں میں اقتصادی امور کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اِسی طرح بہت سے ایسے ممالک بھی ہیں جو اپنی خارجہ حکمت عملیاں بناتے ہوئے بھی اقتصادی روابط کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ پاکستان ایسا نہیں کرتا اور ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ ہتھیاروں پر ضمنی انحصار رکھتے ہوئے زیادہ توجہ اقتصادی روابط استوار کرنے پر دی جائے۔پاکستان خطے میں بہتر کردار ادا کر سکتا ہے کیونکہ اِس کے مشرق میں ایک ارب لوگ جبکہ اِس کے مغرب میں اربوں لوگ رہتے ہیں جن  کا سمندر کے پانیوں تک رسائی کا راستہ پاکستان سے گزرتا ہے۔ اِس صورتحال میں اگر پاکستان اقتصادی امور کو ترجیح دے تو اِس سے بہت فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ فی الوقت افغانستان کی صورتحال انتشار کا شکار ہے اور امریکہ اور چین ایک دوسرے کو حریف کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔پاکستان کو ضرورت ایسی پیداوار میں اضافے کی ہے جو مقامی ضروریات سے زیادہ ہو اور اِسے برآمد کیا جا سکے۔ جنرل باجوہ کے اقتصادی روابط کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ضروری ہے کہ پاکستان میں اجناس کے خریداروں کی اجارہ داری ختم کی جائے جس کے باعث قیمتوں پر حکومت کا باوجود کوشش بھی کنٹرول قائم نہیں ہو رہا۔ جنرل باجوہ کی جانب سے اقتصادی ترجیحات وضع کرنے سے متعلق بیان  سے یہمعلوم ہو گیا ہے کہ پاکستان کے فیصلہ ساز حالات کا حقیقت پسندی سے جائزہ لے رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے مفادات کا تحفظ اقتصادی تعلقات استوار کرنے میں ہے اور صرف یہی ایک صورت نہ صرف اپنی جغرافیائی حیثیت بلکہ باصلاحیت افرادی و پیداواری قوت سے بھی فائدہ اُٹھانے کی ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)