افغانستان: باقی ماندہ دلچسپی۔۔۔۔

افغانستان کا معاملہ اُس نہج کے قریب پہنچ رہا ہے جہاں مذاکرات قابل عمل نہیں رہیں گے۔ طالبان کی پیش قدمی میں تیزی اور مختلف صوبائی دارالحکومتوں پر قبضے سے متعلق اطلاعات آ رہی ہیں جن کی افغان ذرائع تردید بھی نہیں کر رہے جبکہ افغانستان میں امریکہ کی باقی ماندہ دلچسپی یہ ہے کہ وہاں بننے والی حکومت میں ایسے کرداروں کو شامل کر دیا جائے جو امریکی مفادات کا تحفظ کریں اور افغانستان میں ہونے والی قانون سازی اور فیصلوں سے امریکہ قبل از وقت آگاہ بھی ہوتا رہے۔ اِس سلسلے میں صدر جوبائیڈن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ”افغانستان کا دفاع کرنا افغان سکیورٹی فورسز کی ہی ذمہ داری ہے۔“ اُن کے کہنے کا مطلب یہی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ افغان حکومت مذاکرات کی بجائے فوج (طاقت) کا استعمال کرے جبکہ افغانستان کے تناظر میں طاقت کا استعمال کبھی بھی کارآمد نہیں رہا اور خود امریکہ بیس سال تک کئے گئے ایک تجربے کے نتیجے کو مدنظر نہیں رکھ رہا‘ جس میں اُسے پسپائی ہوئی ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ ”امریکہ کا افغانستان میں فوجی مشن اکتیس اگست کو مکمل طور پر اختتام پذیر ہو جائے گا‘ جس کے بعد افغانستان کی عوام کو اپنے ملک کے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہوگا اور وہ امریکیوں کی ایک اور نسل کو بیس سالہ جنگ میں دھکیلنا نہیں چاہتے۔“ افغانستان پر جنگ مسلط کرنے کا فیصلہ امریکہ نے کیا تھا اور اب وہ خود ہی اِسے غلطی قرار دے رہا ہے لیکن افغان حکومت کو جنگ کرنے پر اُکسانا اِس بات کی دلیل ہے کہ امریکہ کی قیادت دوسروں کیلئے وہی کچھ پسند کر رہی ہے جو اُس کے اپنے لئے پسندیدہ نہیں ہے۔ امریکہ کا ارادہ ہے کہ وہ افغان فوج کو تربیت اور اسلحہ فراہم کرتے رہیں لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ آیا اکتیس اگست کے بعد بھی امریکی فضائی حملے جاری رہیں گے یا نہیں؟ امریکہ کے محکمہئ دفاع (پینٹاگون) کے ترجمان نے حال ہی میں بیان دیا تھا جس میں اُنہوں نے کہا کہ ”افغانستان میں فوجی مہمات کو اکتیس اگست کے بعد جاری رکھنے کے حوالے سے ابھی تک کوئی بھی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا“ جبکہ امریکہ کے سیاسی و فوجی قائدین کا یہ بیان ’آن دی ریکارڈ‘ موجود ہے کہ امریکی فضائیہ کی افغانستان میں کاروائیاں صرف انسداد دہشت گردی (کاؤنٹر ٹیرر ازم آپریشن) کے مقصد سے ہیں۔ امریکہ طالبان کو بھی متنبہ کر چکا ہے کہ اگر انہوں نے طاقت کے زور پر افغانستان پر قبضہ کیا تو امریکہ اِسے تسلیم نہیں کرے گا۔ یہ امریکہ کا دوہرا معیار ہے۔ ایک طرف وہ کہتا ہے کہ افغان مسئلے سے اب اُس کا کوئی تعلق نہیں رہا اور وہ اپنی افواج واپس بلا رہا ہے جبکہ دوسری طرف وہ کہتا ہے کہ طالبان کہ جن کی عمل داری اکثریتی افغان علاقوں پر قائم ہے اُنہیں حکومت بنانے کا اختیار نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان میں طالبان اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جاری شدید لڑائی میں صرف تین روز کے دوران کم از کم ستائیس بچے ہلاک ہوئے ہیں۔ یہ اموات تین صوبوں (قندھار‘ خوست اور پکتیا) میں ریکارڈ کی گئیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف کے مطابق ان علاقوں میں گزشتہ تین دن کے دوران تقریباً ایک سو چھتیس بچے زخمی بھی ہوئے ہیں۔ اب تک مجموعی طور پر افغانستان کے چھ صوبائی دارالحکومت طالبان کے قبضے میں جا چکے ہیں جن میں ایبک‘ قندوز‘ سرِ پل‘ تالقان‘ شبرغان اور زرنج شامل ہیں جبکہ کئی مقامات پر حکومتی فورسز اور طالبان میں جھڑپیں جاری ہیں اور دونوں ہی ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے کے دعوے کر رہے ہیں۔افغانستان دارالامان نہیں رہا۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف کے مطابق ’افغانستان میں بچوں کے خلاف جرائم میں اضافہ‘ ہو رہا ہے جن کے بارے میں یونیسیف کو خدشات لاحق ہیں۔ امریکہ کے مندوب ِخصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد قطر میں افغان طالبان سے مذاکرات کریں گے اور اُن پر زور دیا جائے گا کہ وہ مذاکراتی عمل کے دوران عسکری کاروائیاں بند کر دیں اور افغان مسئلے کو سیاسی طور پر حل کرنے پر توجہات مرکوز رکھیں۔ امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جاری کئے گئے بیان کے مطابق گزشتہ تین روز تک جاری رہنے والے امریکہ طالبان مذاکرات میں مختلف حکومتوں کے نمائندے اور دیگر ادارے افغانستان میں بڑھتے پرتشدد واقعات کو کم کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ جنگ بندی ہو سکے اور اس بات کا عہد کیا جائے کہ ایسی حکومت کو تسلیم کریں جو بزور طاقت نہ آئی ہو۔ امریکی فوج کی جانب سے صدر جو بائیڈن کو پیغام دیا گیا تھا کہ امریکی فوج کے انخلأ کے بعد افغانستان کے کئی صوبائی دارالحکومت طالبان کے قبضے میں جا سکتے ہیں لیکن انہیں بھی اس بات کی حیرانی تھی کہ کتنی سرعت سے انہوں نے بڑے شہروں پر قبضہ کیا ہے۔ امریکہ ایک طرف طالبان سے مذاکرات پر توجہ دینے اور عسکری کاروائیاں روکنے کیلئے زور دے رہا ہے لیکن دوسری طرف وہ خود طالبان پر فضائی حملے کر رہا ہے۔ یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ اب تک افغان فوج نے امریکہ سے مدد طلب نہیں کی لیکن امریکہ اپنی ترجیحات اور فوجی حکمت عملی کے مطابق طالبان کی پیشقدمی روکنے کے لئے فضائی کاروائیاں کر رہا ہے۔ اِس صورتحال میں افغان مذاکراتی عمل کم سے کم کسی ایسے نتیجے پر نہیں پہنچ سکتا جو امریکہ کے لئے بھی یکساں قابل قبول ہو۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مذاکراتی عمل میں مداخلت کی بجائے افغان آپس میں مل بیٹھ کر ایک ایسے حل پر اتفاق کر لیں جس سے افغانستان میں جاری خونریزی کا دور ختم ہو۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: زاہد خان۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)