اقتصادی منظرنامہ اور ترجیحات

آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی نے ملک میں گیس کی قیمت 14فیصد بڑھانے کی منظوری دیدی ہے اوگرا کی جانب سے فیصلہ سوئی ناردرن اور سدرن کی ریونیو ضروریات سے متعلق درخواستوں پر کیا گیا ہے نئے نرخوں کے مطابق سوئی ناردرن کیلئے گیس کی قیمت686 روپے77پیسے جبکہ سوئی سدرن کیلئے یہ نرخ 779 روپے88پیسے فی ایم ایم بی ٹی یو میں ہوگی دوسری جانب مہیا تفصیلات کے مطابق اوگرا نے سوئی ناردرن کو گزشتہ مالی سال کے بقایا جات کی مد میں 254 ارب روپے وصولی کی اجازت نہیں دی اور اس معاملے پر وفاقی حکومت سے رائے مانگ لی ہے گیس کے نرخوں میں اضافے کا حتمی فیصلہ بھی وفاقی حکومت کرے گی جوتادم تحریر سامنے نہیں آیا گیس کے نرخوں میں اضافہ نہ صرف گھریلو صارفین کے یوٹیلٹی بلوں کا حجم بڑھاتا ہے بلکہ ملک میں مجموعی پیداواری لاگت بھی اس سے بڑھ جاتی ہے جس کے نتیجے میں گرانی کا گراف بھی بلند ہوتا چلا جاتا ہے وطن عزیز میں گرانی پہلے ہی طوفان کی صورت اختیار کئے ہوئے ہے جبکہ گیس کے بل بڑھنے سے غریب اور متوسط طبقے کے شہریوں کیلئے اذیت میں مزید اضافہ ہوگا دریں اثناء یوٹیلٹی سٹورز پر گھی چائے کی پتی اور بعض دیگر اشیاء مزید مہنگی ہوئی ہیں اسلام آباد سے خبررساں ایجنسی کا کہنا ہے کہ ایک کلو گھی کا پیکٹ 31 جبکہ خوردنی تیل34 روپے کلو مہنگا ہوگیا ہے وطن عزیز کی معیشت کو درپیش مشکلات سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا اس تلخ حقیقت سے چشم پوشی بھی ممکن نہیں کہ برسوں کے بگاڑ کو سنوارنے کیلئے طویل وقت بھی درکار ہوگا اس ضمن میں حکومت کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات بھی سب کے سامنے ہیں جبکہ اقتصادی اشاریوں میں بہتری بھی ہو رہی ہے اس سب کیساتھ اس حقیقت سے بھی صرف نظر ممکن نہیں کہ گرانی کی شدت نے شہریوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اس سارے منظرنامے کا ایک تقاضہ تو معیشت کے شعبے میں استحکام اور اسے خود انحصاری کی جانب لے جانا ہے تو دوسری جانب مارکیٹ کنٹرول کے ذریعے عوام کو مصنوعی مہنگائی‘ ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی سے نجات دلانا ہے اس مقصد کیلئے اقدامات کو ترجیحات میں سرفہرست رکھنا ہوگا بصورت دیگر اقتصادی اشاریوں میں بہتری عام شہری کیلئے کسی صورت ثمرآور نہیں ہوگی۔
عوامی شکایات
 صحت کارڈ بلاشبہ خیبرپختونخوا حکومت کا بڑا منصوبہ ہے کارڈ کے تحت علاج کی سہولیات سے عوام  کی بڑی تعداد مستفید ہو رہی ہے قابل اطمینان ہے کہ کارڈ ہولڈرز شہریوں کو درپیش شکایات پر کاروائی کا سلسلہ بھی جاری ہے جبکہ شکایات کے ازالے کے طریقہ کار میں بہتری کیلئے اقدامات بھی اٹھائے جارہے ہیں ہیلتھ سیکٹر میں مجموعی طور پر اصلاحات کا سلسلہ بھی جاری ہے جس میں بڑی علاج گاہوں میں انتظامی حوالے سے تجربات بھی تسلسل سے ہو رہے ہیں اس سب کے باوجود ہسپتالوں میں خدمات کے ضمن میں عوامی شکایات اپنی جگہ ہیں سروسز کے معیار ہی کے باعث مریضوں کی بڑی تعداد نجی شعبے کے اداروں میں علاج کیلئے جاتی ہے کیا ہی بہتر ہو کہ جس طرح صحت کارڈ کے تحت علاج میں مشکلات کے حوالے  سے شکایات کا ازالہ کرنے پر توجہ دی جارہی ہے اسی طرح سرکاری شفاخانوں سے متعلق عوامی شکایات کا نوٹس بھی لیا جائے تاکہ لوگوں کو ریلیف مل سکے جس کیلئے حکومت ساری ایکسرسائز کر رہی ہے۔