تین سال۔۔۔۔۔۔۔۔

گزشتہ عام انتخابات سے قبل پاکستان تحریک انصاف نے اپنا ’انتخابی منشور‘ جاری کیا تھا جو 61 صفحات‘ 639 جملوں اور 14 ہزار640 الفاظ پر مشتمل تھا اور اِس کا عنوان ”نئے پاکستان کی تخلیق سے متعلق لائحہ عمل (The road to Naya Pakistan)“ رکھا گیا تھا۔ مذکورہ انتخابی منشور انتہائی گہرائی‘ توجہ اور ملکی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے وسیع تناظر کا احاطہ کرتے ہوئے لکھا گیا تھا۔ تحریک انصاف نے ملک کو درپیش مسائل کا درست تعین اور کمزوریوں و خامیوں کا درست تعین کیا تھا کہ جب تک طرزحکمرانی کی اصلاح نہیں کر لی جاتی اُس وقت تک ملکی مسائل جو بحران کی صورت اختیار کر چکے ہیں ختم نہیں ہوں گے۔ توجہ طلب ہے کہ قومی قرضہ جات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بجلی کی چوری عام ہے اور سرکاری ادارے مسلسل خسارے کی وجہ سے قومی خزانے پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف کے انتخابی منشور میں اصلاحات (reforms) کا لفظ قریب 4 درجن مرتبہ استعمال ہوا جن میں یہ بات بھی شامل تھی کہ برسراقتدار آنے کے بعد سرکاری ملازمین کے ملازمتی قواعد پر نظرثانی کی جائے گی۔ ٹیکس جمع کرنے والے ادارے ’فیڈرل بورڈ آف ریونیو‘ کا قبلہ درست کیا جائے گا۔ قومی احتساب بیورو (NAB) کی اصلاح کی جائے گی۔ حکومتی اداروں کی خریداری کے عمل کی اصلاح کی جائے گی اور سرکاری ادارہ جاتی ڈھانچوں کی اصلاح ہوگی۔سال 2018ء میں تحریک انصاف برسراقتدار آئی اور سب سے پہلے کوشش یہ کی گئی کہ پاکستان سے غیرقانونی طور پر بیرون ملک منتقل ہونے والی 200 ارب ڈالر جیسی غیرمعمولی بڑی رقم جسے ماضی کے سیاسی فیصلہ سازوں نے بدعنوانی کے ذریعے اکٹھا کر کے سوئزرلینڈ کے بینکوں میں جمع کروا رکھا ہے واپس لائے جائیں۔ مرحلہ درپیش تھا کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے قومی قرضوں کے نام پر لئے گئے 100 ارب ڈالر کیسے واپس کئے جائیں؟ اِس بارے میں سوچ بچار ہوا کہ پاکستان کو امیر ملک کیسے بنایا جائے؟ برسراقتدار آنے کے بعد سے تحریک انصاف نے 3 درجن ’ٹاسک فورسز‘ بنائی ہیں جو قریب سبھی حکومتی اداروں سے متعلق ہیں۔ حال ہی میں احساس لنگر سکیم اور اُس کے بعد نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام متعارف کرائے گئے۔ بے گھر افراد کیلئے پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کا اعلان اپنی ذات میں بہت پُرکشش ہے۔ اسی طرح حکومت کو بردار ممالک سے امداد ملنے کا سلسلہ شروع ہوا اور اگلے مہینے وزیراعظم نے اعلان کیا کہ دیہی علاقوں میں رہنے والی خواتین کو مرغیاں اور انڈے مفت دیئے جائیں گے تاکہ وہ اپنی کفالت کیلئے چھوٹے پیمانے پر آمدنی کے اِس ذریعے سے فائدہ اُٹھا سکیں اور نہ صرف مرغبانی سے انفرادی حیثیت میں فائدہ اُٹھایا جائے بلکہ اِس سے ملک کی بیمار اقتصادیات کو بھی سہارا دیا جائے۔سال 2019ء کے دوران سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ سلمان نے پاکستان میں 20 ارب ڈالر سرمایہ کاری کا وعدہ کیا۔ مارچ میں وزیراعظم نے قوم کو بتایا کہ پاکستان میں تیل و گیس کے غیرمعمولی طور پر بڑے حجم کے ذخائر دریافت ہو گئے ہیں۔ مئی دوہزاراٹھارہ میں پاکستان کو مجبوراً ’آئی ایم ایف‘ سے 6 ارب ڈالر قرض حاصل کرنا پڑا کیونکہ ملک کی اقتصادی صورتحال خراب تھی۔ اِس کے بعد اکتوبر اور نومبر کے مہینوں میں حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) نے اسلام آباد میں دھرنا دیا جس سے اقتصادیات سست روی کا شکار ہوئی۔ اپریل میں گندم اور چینی کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ منظرعام پر لائی گئی۔ اِس بارے میں قوم کو بتایا گیا کہ گندم اور چینی کا کاروبار کرنے والے ہر سال 50 ارب روپے اضافی کماتے ہیں۔ اِس کے بعد وزیراعظم نے تعمیراتی شعبے کیلئے ٹیکس میں چھوٹ کی اسکیم کا اعلان کیا اور اگر اسے تحریک انصاف حکومت کی سب سے بڑی کامیابی قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ حال ہی میں معلوم ہوا ہے کہ گھروں کی تعمیر کیلئے ماضی میں دیئے جانے والے قرضہ جات کے مقابلے 75 فیصد زیادہ قرض لئے گئے ہیں اور اِن قرضوں کا مجموعی حجم 259 ارب روپے ہے۔ جون میں احساس پروگرام کے تحت وفاقی حکومت نے 209 ارب روپے غرباء میں تقسیم کئے جس سے ڈیرھ کروڑ (15ملین) خاندانوں کو مالی آسودگی فراہم کی گئی۔ ماضی کی حکومتوں میں اِس قسم کے ریلیف دینے کی مثالیں نہیں ملتیں۔ قابل ذکر ہے کہ احساس پروگرام دنیا کے 4 بڑے سماجی بہبود کے پروگراموں میں شامل ہے۔ ستمبر 2020ء میں ویزراعظم نے ’روشنی ڈیجیٹل (بینک) اکاؤنٹس‘ کا اجرا کیا اِس حکمت عملی سے اب تک حکومت کو 2 ارب ڈالر ملے ہیں جو اپنی جگہ ایک اہم کامیابی ہے۔سال 2021ء کے دوران پاکستان کی انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹٰی) کمپنیوں کی برآمدات میں 47فیصد اضافہ ہوا اور یہ 1.9 ارب ڈالر تک جاپہنچیں جو کہ گیارہ مہینوں میں حاصل کردہ غیرمعمولی کامیابی ہے اور ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔تحریک انصاف نے کئی سنگ میل عبور کئے ہیں جن میں ارب روپے کا احساس پروگرام‘ کھربوں روپے کا کامیاب پاکستان پروگرام‘ ہیلتھ کارڈ‘ قومی پیداوار کی شرح نمو 3.9فیصد کرنا شامل ہیں۔ تحریک انصاف کے مقابلے میں حزب اختلاف کی جماعتیں اپنے انتخابی حلقوں کا دفاع کرنے کی سوچ رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ سیاسی طور پر دفاعی حکمت عملی اختیار کئے ہوئے ہیں اور حکومت کی کارکردگی پر زیادہ توجہ نہیں دے رہے۔ تحریک انصاف کیلئے سب سے بڑا چیلنج مہنگائی ہے۔ اِس کے علاوہ افغانستان کی صورتحال‘ آئی ایم ایف کے قرضوں کی واپسی اور سود کی ادائیگی اور ڈالر کے مقابلے پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کا سلسلہ پریشانیاں ہیں۔ فی الوقت تحریک انصاف کیلئے حزب اختلاف کی جماعتیں (نواز لیگ اور پیپلزپارٹی) نہیں بلکہ  وہ وعدے چیلنج ہیں جو عوام سے کئے گئے ہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)