افغان جنگ: معنی خیز اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امریکہ کے صدر جو بائیڈن افغانستان میں بڑی جنگ کے سخت خلاف ہیں لیکن اگر وہاں انسانی بحران ہوا‘ اور ماضی کی طرح افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کا عروج دیکھنے میں آیا یا پھر افغانستان میں اقتدار کی رسہ کشی میں دیگر ممالک ایک دوسرے کے مفادات کے خلاف خانہ جنگی میں ملوث ہوئے تو امریکہ کی موجودہ اور سابق سیاسی قیادت کی جانب سے اشارے کنائیوں میں کہا گیا ہے کہ ایسی صورتحال میں امریکہ افغانستان میں دوبارہ فوجی مداخلت کر سکتا ہے اور اِسے افغانستان کے محاذ کی آخری جنگ‘ فتح یا شکست قرار نہ دیا جائے۔ افغانستان سے امریکہ کی واپسی کے بعد اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی بھی کوشش ہو رہی ہے کہ دنیا کا سب سے طاقتور ملک جس کے پاس جدید ترین فوج‘ جدید ترین ٹیکنالوجی اور جدید ترین فضائیہ ہے وہ طالبان کو شکست کیوں نہیں دے سکا؟ امریکی دانشور اس بات پر الگ سے حیران ہیں کہ امریکہ دورِ جدید میں جنگیں کیوں نہیں جیت پاتا؟ سوال یہ بھی اہم ہے کہ کیا امریکی افواج کی واپسی کے بعد افغانستان میں امریکی حصے داری کا خاتمہ ہو جائے گا‘ خاص طور پر ایسے وقت میں جب چین اور روس نے بڑھ کر طالبان کے ساتھ رشتہ قائم کیا ہے؟ امریکہ کے دفاع میں کچھ لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ امریکہ کو افغانستان اور عراق میں بہت سی کامیابیاں ملی ہیں۔ افغان جنگ میں امریکہ کی سب سے بڑی کامیابی القاعدہ تنظیم کو منتشر کرنا تھا جس کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ڈھونڈ نکالنا سب سے بڑی کاروائی تھی لیکن القاعدہ کو ختم نہیں کیا جا سکا اور اِس کے ساتھ کام کرنے والے اور بالخصوص سہولت کار دیگر دھڑوں کا حصہ بن گئے۔ اِس محاذ پر بھی امریکہ جسے بڑی کامیابی کہتا ہے وہ اِسے حاصل نہیں ہوئی ہے البتہ اگر ہم گزشتہ بیس برس کے دوران افغانستان میں ہونے والی تعمیروترقی کو دیکھیں تو مواصلاتی رابطوں میں اضافہ ہوا ہے۔ خواتین کیلئے تعلیمی اداروں کی تعداد بڑھی ہے۔ افغانوں میں ایک تعلیم یافتہ متوسط طبقہ ابھر کر سامنے آیا ہے‘ قابل غور بات یہ ہے کہ سال 1945ء سے امریکہ نے پانچ بڑی جنگیں لڑیں جن کے مجموعی نتیجہ یہ ہے کہ امریکہ کسی ایک بھی جنگ میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکا اور نہ ہی اُن جنگوں کے اثرات سے باہر آ سکا۔ ہر جنگ اپنے پیچھے ایسے حالات اور تباہ کاریاں چھوڑ جاتی ہے‘ جس کے زخموں پر مرہم لگاتے ہوئے امریکہ کو بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے لیکن امریکہ میں اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ امریکہ افغانستان‘ شام‘ عراق اور یمن میں بذریعہ جنگی حکمت عملی دہشت گردوں کو جڑ سے اکھاڑنے میں ناکام رہا‘ طالبان کی جنگ میں فتح اور اقتدار میں واپسی امریکہ کی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو امریکہ اُنیس سو پینتالیس تک تقریباً تمام بڑی جنگیں جیت چکا تھا لیکن اُنیس سو پینتالیس کے بعد سے امریکہ نے بہت کم جنگوں میں معنی خیز فتح حاصل کی ہے۔ امریکہ نے 1945ء کے بعد سے پانچ بڑی جنگیں لڑی ہیں جن میں کوریا‘ ویت نام‘ خلیجی جنگ‘ عراق اور افغانستان شامل ہیں۔ اس کے علاوہ چند معمولی جنگیں بھی ہیں جن میں صومالیہ‘ یمن اور لیبیا کی جنگیں شامل ہیں‘ 1991ء کی خلیجی جنگ کے علاوہ جسے کامیابی سمجھا جا سکتا ہے‘ امریکہ دیگر تمام جنگیں ہار چکا ہے۔ شکست ایک الگ چیز ہے لیکن جس طرح سے امریکی فوجی بن غازی‘ صومالیہ‘ سائیگون اور اب کابل سے بے بسی کی حالت میں واپس آئے ہیں اس نے امریکی شکست کو مزید شرمناک بنا دیا ہے۔ امریکہ کے جنگ ہارنے کی کئی وجوہات ہیں‘ جن میں مقامی ثقافت کو نہ سمجھنا سب سے اہم نکتہ ہے۔ افغانستان‘ عراق‘ شام اور لیبیا جیسی جنگیں درحقیقت بڑی خانہ جنگیاں ہیں۔ طاقت یا مادی طاقت ان جنگوں میں فتح کی ضمانت نہیں دیتی۔ خاص طور پر جب امریکہ جیسا ملک مقامی ثقافت سے ناواقف ہو اور ایسے دشمن سے لڑے جو زیادہ باخبر اور زیادہ پرعزم ہو۔ امریکی شکست کی بڑی وجہ مقامی ثقافت کے بارے میں مضبوط فہم کا فقدان سمجھتے ہیں اگر ہم افغانستان کی بات کریں تو اِس محاذ پر امریکہ اور اِس کی اتحادی افواج کو مشکل علاقوں سے واسطہ تھا‘ ان وادیوں‘ پہاڑوں اور غاروں سے جہاں طالبان کے اڈے تھے اور ان سے طالبان پوری طرح شناسا تھے لیکن امریکی فوجی نہیں۔ جب بھی امریکی فوجیوں کو کوئی خطرہ محسوس ہوتا تو وہ علاقے میں شدید بمباری کرتے اور اپنی طاقت کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے پورے علاقے کو تباہ کر دیتے تھے۔ویت نام کی جنگ میں شمالی ویت نام کی حکومت نے ایک کمیونسٹ گوریلا فورس قائم کی جسے ویت کونگ کہا جاتا تھا جس کے کمیونسٹ نظریات اور قوم پرستی کے عزائم امریکی فوجیوں پر بھاری پڑے کیونکہ امریکی فوجی اکثر سوچتے تھے کہ وہ اپنے ملک سے ہزاروں کلومیٹر دور کس کے لئے جنگ لڑ رہے ہیں۔ موت کی پرواہ نہیں کرنے والے اور اپنے نظریات پر جان دینے والے آخر کار امریکیوں کو بھگانے میں کامیاب ہو گئے‘یہی حال طالبان کا بھی ہے۔ اس کے برخلاف امریکی افواج کی ترجیح جان بچانا ہوتی تھی اور اِسی ایک محرک نے افغان جنگ کو عالمی طاقتوں کے مقابلے افغان عوام سے اُبھرنے والے طالبان کے حق میں کر دیا تھا‘ جنہیں ایک کے بعد ایک کامیابی حاصل ہوتی چلی جا رہی ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر اختر فاروقی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)