افغانستان میں امریکی ناکامیوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔امریکی اس قدر افراتفری میں تھے کہ اپنے تین سو شہریوں کو بھی افغانستان میں بے یار و مددگار چھوڑ گئے۔ انخلا کے آخری چند گھنٹے ڈرامائی تھے جن میں امریکی فوجیوں کو ہم وطنوں کو طیاروں میں سوار کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا سامان باندھ کر روانہ ہونا تھا اور انہی آخری گھنٹوں میں انہیں دو حملوں کا سامنا کرنا پڑا جن میں تیرہ فوجی مارے گئے اور آخری لمحے تک کسی نئے حملے کا خوف ان کے اعصاب پر سوار رہا۔امریکی انخلا کے بعد کئی اہم سوالات سر اٹھائے کھڑے ہیں جن کے جواب آنے والے دنوں میں ملیں گے لیکن اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ کیا ہوگا اور کیسے ہوگا؟ پہلا سوال طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے متعلق ہے تو تاحال طالبان نے حکومت کا باضابطہ اعلان نہیں کیا اور آخری امریکی فوجی کی موجودگی تک یہ اعلان مؤخر رکھا گیا تھا۔ جی سیون ممالک طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کیلئے تین مرحلوں یا شرائط پر مشتمل لائحہ عمل سامنے لائے ہیں۔ پہلا مرحلہ: افغانستان سے افغانوں اور تمام غیر ملکیوں کی محفوظ اور منظم طریقے سے واپسی یقینی بنائی جائے۔ دوسرا مرحلہ: خواتین‘ بچوں اور اقلیتوں کے انسانی حقوق کو یقینی بناتے ہوئے افغانستان میں انسانی امداد کی اجازت دی جائے۔ تیسرا مرحلہ: افغان طالبان اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کا ملک کسی دوسرے ملک پر حملے کے لئے استعمال نہیں ہوگا یعنی افغانستان دہشت گردوں کو پناہ یا تربیت اور دہشت گردی کی کاروائیوں میں معاونت نہیں کرے گا۔ اقوامِ متحدہ کی قرارداد میں افغانوں اور غیر ملکیوں کیلئے ملک چھوڑنے میں سہولت کی خاطر کابل میں محفوظ زون کا مطالبہ بھی شامل تھا لیکن روس اور چین کی مخالفت کے بعد اسے نکال دیا گیا کیونکہ اس نکتے کی وجہ سے ویٹو کا ڈر موجود تھا۔ اس کا ذکر روس کے مندوب نے کیا اور کہا کہ محفوظ راستے کی بات کرتے ہوئے افغانستان سے برین ڈرین کو ملحوظ ِخاطر نہیں رکھا گیا اور افغانستان کے معاشی مسائل کی طرف بھی توجہ نہیں دی گئی۔ امریکہ نے افغانستان کے مرکزی بینک کے اثاثے منجمد کئے ہیں جس کے اِنسانی زندگیوں پر اثرات کا بھی کوئی ذکر نہیں کررہا۔ روس کا کہنا ہے کہ مذکورہ قرارداد میں علاقے کے ملکوں کیلئے دہشت گردی کے خطرات پر بھی کوئی بات نہیں کی گئی۔ یوں روس نے اپنے تحفظات اور ایجنڈا بتا دیا۔ امریکہ اور اتحادی اقوامِ متحدہ میں پیش کی گئی قرارداد کو ایک روڈ میپ تصور کر رہے ہیں اور اس پر عمل کی صورت میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے لئے ابھی وقت درکار ہے۔ چین نے بھی امریکی قرارداد کو سپورٹ نہیں کیا۔ دونوں ملک امریکا کی روانگی سے پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنا چاہتے ہیں اور دونوں ملکوں کیلئے سیکیورٹی مسائل بھی ہیں۔ روس افغان مسئلے میں خود کو ایک مصالحت کار کے روپ میں پیش کر رہا ہے۔ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے حال ہی میں امریکہ اور مغربی ملکوں کی طرف سے افغانستان میں جمہوریت کے قیام کی کوششوں کا بھی مذاق اڑایا تھا۔ انہوں نے اینجلا مرکل سے مذاکرات کے بعد ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ مغرب کے سیاستدان اب اس بات کو سمجھنے لگے ہیں کہ اجنبی سیاسی نظام کو دوسرے ملکوں پر مسلط نہیں کیا جاسکتا۔ کابل پر طالبان کے قبضے کے فوری بعد روس کے صدر متحرک ہوئے اور خطے کے ملکوں سے فون پر رابطے کئے اور دنیا کو جتانے کی کوشش کی کہ وہ امریکہ کی ہزیمت کے بعد قیادت کے قابل ہیں۔ روس نے دیگر ملکوں کے برعکس سفارتخانہ بھی خالی نہیں کیا اور شہریوں کو نکالنے کیلئے بھی بے چینی نہ دکھائی بلکہ معمول کی سرگرمیاں جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا۔ دراصل روس ایک عرصے سے طالبان کو اقتدار میں واپس آتا دیکھ رہا تھا اور اس کی تیاری میں تھا اور پچھلے سات سال سے طالبان قیادت کے ساتھ بھرپور رابطوں میں تھا۔ جیسے بین الافغان مذاکرات کیلئے روس نے ماسکو میں بندوبست کیا‘ طالبان کو دہشت گرد گروپ قرار دینے کے باوجود ان کی قیادت کو ماسکو میں پروٹوکول ملتا رہا۔ اب روس کئی برسوں سے کی گئی محنت کا پھل وصول کرنے کی کوشش میں ہے۔ روس خطے میں اثر و رسوخ گہرا کرنا چاہتا ہے۔ اگست کے اوئل میں ہی طالبان کی پیش قدمی دیکھ کر روس نے ہمسایہ ملکوں ازبکستان‘ تاجکستان اور چین کے ساتھ مشترکہ جنگی مشقیں کیں اور یوں روس نے وسطی ایشیا میں خود کو سب کا محافظ ہونے کا یقین دلا دیا۔ روس امریکی انخلا کو خطے میں واشنگٹن کے کم ہوتے اثر و رسوخ سے تعبیر کرتا ہے۔ روس اپنے عقب میں کسی بھی دہشت گردی کے خطرے کو اپنے لئے خطرہ تصور کرتا ہے اور طالبان سے یقین دہانیاں لینے کے بعد سیاسی تصفیے میں کردار ادا کرنے کا متمنی ہے۔ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ روس کس قدر کامیاب رہتا ہے لیکن افغانستان کا سیاسی تصفیہ ماسکو میں ہوتا نظر آتا ہے اور ابھی تک روس اس مسئلے میں بڑا کھلاڑی بن کر اُبھرا ہے۔ چین بھی طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے اشارے پہلے ہی دے رہا ہے۔ چین کے وزیرِ خارجہ وانگ ژی نے امریکی ہم منصب سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی برادری نئی طالبان حکومت کے معاملات چلانے میں رہنمائی فراہم کرے۔ واشنگٹن بھی نئی حکومت کو چلانے میں مدد دینے کیلئے عالمی برادری کے ساتھ مل کر کام کرے کیونکہ امریکہ کا جلدبازی میں انخلا افغانستان میں دہشت گردوں کو منظم ہونے کا موقع دے سکتا ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر ناظم صدیقی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شعبہ ئ تعلیم: اصلاحات و تصورات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام