خطرے کی گھنٹیاں 

پس منظر: 1947ء میں پاکستانی روپے کے مقابلے امریکی ڈالر کی شرح تبادلہ 3 روپے 31 پیسے تھی۔ اِس کے بعد اگر مطالعہئ پاکستان کو تیزی سے آگے بڑھاتے ہوئے سیاسی ادوار تک لیجایا جائے تو پیپلزپارٹی کے پہلے دور حکومت میں پاکستانی روپے کی قدر میں 20فیصد کمی ہوئی۔ مسلم لیگ (نواز) کے دور میں روپے کی قدر میں مزید 26فیصد کمی دیکھنے میں آئی اور تحریک انصاف کے جاری دور (گزشتہ 37 مہینوں) میں پاکستانی روپیہ مزید 40 فیصد قدر کھو چکا ہے۔پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کے اِس رجحان کی کئی وجوہات ہیں۔ ماہ جولائی اور اگست کے مہینوں میں پاکستان کی درآمدات 12 ارب ڈالر رہیں جو ایک غیرمعمولی طور پر زیادہ درآمدات ہیں اور ماضی میں کبھی بھی اِس قدر مالیت کی درآمدات نہیں ہوئیں۔ ایک طرف پاکستان کی درآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری طرف پاکستان کی برآمدات خاطرخواہ نہیں۔ سال 2013ء میں برآمدات اگر 30.699 ارب ڈالر تھیں تو 2021ء میں 31 ارب ڈالر مالیت کی برآمدات ہو رہی ہیں یعنی دونوں میں زیادہ فرق نہیں اور یہی وجہ ہے کہ پاکستانی روپے پر دباؤ برقرار رہتا ہے کیونکہ پاکستان کی درآمدات زیادہ لیکن اِس کی برآمدات کم ہیں۔افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی پاکستانی روپے پر دباؤ بڑھا ہے۔ کرنسی ڈیلرز ایسوسی ایشن کے مطابق طالبان کے آتے ہی پاکستان سے افغانستان ڈالر جانے کا سلسلہ شروع ہوا اور اِس دوران پچاس لاکھ (پانچ ملین) سے ایک کروڑ (دس ملین) ڈالر افغانستان گئے‘ جس کی وجہ سے پاکستان کی مارکیٹ میں ڈالر کی مانگ بڑھی اور طلب و رسد میں پیدا ہونے والے اِس فرق کی وجہ سے بھی ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوا۔دنیا بھر میں غیریقینی کی صورتحال کاروباری سرگرمیوں کیلئے عدم استحکام لاتا ہے اور اِسے سب سے بڑا دشمن قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان کی کاروباری سرگرمیاں بھی غیریقینی کی وجہ سے عدم استحکام کے دور سے گزر رہی ہیں اور اِس غیریقینی کے محرکات و اسباب میں امریکہ کی جانب سے پاکستان کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی‘ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی جانب سے پاکستان کے کردار پر نظرثانی‘ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی جانب سے پاکستان کو دیئے جانے والے قرض کی قسط روکنے‘ پاکستان درآمدات و برآمدات میں 29 ارب ڈالر کے فرق کی موجودگی اور افغانستان میں غیریقینی کی صورتحال شامل ہیں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ دنیا کے مقابلے پاکستان میں جدید ٹیکنالوجی کو اپنانے کی شرح (رجحان) بھی کم ترین سطح پر ہے۔ اِس صورتحال سے ملک میں مہنگائی کی ایک نئی لہر آئی ہے۔ پاکستان اپنی ضروریات کیلئے پٹرول‘ ڈیزل‘ مائع گیس اور پٹرولیم مصنوعات وغیرہ درآمد کرتا ہے۔ اِن کے علاوہ گندم‘ چینی‘ روئی‘ خشک چائے‘ برتن‘ مرچ‘ کھاد‘ مشینری‘ لوہا‘ اسٹیل‘ پام آئل اور کاغذ بھی درآمد کئے جاتے ہیں۔ اِن سبھی درآمدی اشیا کی قیمتوں کا تعین بیرون ملک ہوتا ہے جہاں سے اِنہیں خریدا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ عالمی مارکیٹ میں قیمتیں مقرر کرنا پاکستان کے بس میں نہیں۔ درآمدی اشیا پر انحصار کی وجہ سے پاکستانی روپے پر دباؤ بنا رہتا ہے جس سے نکلنے کیلئے روپے کی قدر میں کمی کی جاتی ہے تاکہ پاکستان میں بننے والی مصنوعات کم لاگت کی وجہ سے عالمی منڈیوں کو برآمد ہو سکیں لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں بننے والی مصنوعات میں ساٹھ فیصدی ایسی ہیں جن کیلئے خام مال درآمد کرنا پڑتا ہے اور جب حکومت روپے کی قدر میں کمی کرتی ہے تو بیرون ملک سے درآمدات مہنگی ہو جاتی ہیں جن کی وجہ سے بننے والی مصنوعات پاکستان کی مقامی اور عالمی منڈی میں قیمتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ اِس مسئلے کا حل یہ ہے کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کچھ عرصے کیلئے شرح سود میں اضافہ کرے تاکہ اِس سے روپے کو سہارا دیا جا سکے۔ گزشتہ تین ماہ کے دوران سٹیٹ بینک نے روپے کو سہارا دینے کیلئے 1.2 ارب ڈالر جاری کئے ہیں اور اگر طویل المیعادی حکمت عملی کی بات کی جائے تو پاکستان کے اقتصادی ڈھانچے میں اصلاحات متعارف کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ قطعی آسان نہیں ہوگا کہ مختلف شعبوں میں گروہی (کارٹیلز کے) مفادات کی وجہ سے پاکستان کی اقتصادیات بہتر نہیں ہو رہی جیسا کہ بجلی‘ چینی‘ کھاد اور موٹرگاڑیاں بنانے والی صنعت سے وابستہ افراد نے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ایک ایسا بندوبست تخلیق کر رکھا ہے جس میں اُن کے کاروباری مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔ اِسی طرح ضرورت اِس امر کی بھی ہے کہ پاکستان کے خزانے پر بوجھ بننے والے قومی اداروں کا خسارہ کم کیا جائے جو سالانہ قریب 2 کھرب روپے ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)