ذرائع ابلاغ تعمیری کردار

مغربی ذرائع ابلاغ اسلام اور مسلمانوں کے بارے جس رائے کا اظہار کرتے ہیں وہ اُن کے محدود علم کی عکاسی کرتا ہے کہ انہوں نے اسلام کی حقیقت اور اِس کی تعلیمات کی گہرائی کو نہیں سمجھا لیکن چونکہ مغربی ذرائع ابلاغ پر آنکھیں بند کر کے اعتماد کرنے والوں کی بڑی تعداد ہے اِس لئے اسلام کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کا بھی ازالہ نہیں ہو رہا۔ مسلم دنیا کے حکمرانوں کو چاہئے کہ جب وہ اسلام کے حقیقی تشخص اور ساکھ کی بات کرتے ہیں تو اُنہیں مغربی ذرائع ابلاغ کی تعلیم کا بھی بندوبست کرنا چاہئے اور اسلام کے بارے میں معلومات عام کرنی چاہئے بالخصوص مغربی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے اسلام بارے تصورات کو واضح کرنا چاہئے۔ماہرین نے نشاندہی کی ہے کہ اسلام کے بارے میں مغربی ذرائع ابلاغ سے پیدا ہونے والی صورتحال کو ”خاموش تماشائی“ بن کر نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ اسے مزید بڑھنے سے روکنے کے کوئی نہ کوئی طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔ اگرچہ یہ سیاسی سائنس دانوں‘ مذہبی رہنماؤں اور انتظامی اختیارات کے حامل افراد کیلئے دعوت فکر ہے کہ وہ خاطرخواہ اقدامات تجویز کرنے کیلئے مزید اختراعی طریقوں کے بارے میں سوچیں لیکن یہاں چند ایسے تصورات بھی ہیں کہ جن کی وجہ سے مسائل یا غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں لہٰذا ضرورت خود شناسی کی بھی ہے کہ اِس کے ذریعے دنیا کے سامنے اپنا مؤقف زیادہ بلند ہمتی سے پیش کیا جاسکتا ہے۔ مسلمان ثقافتی‘ سیاسی اور اپنی مذہبی عبادات کے معاملات میں کوئی بھی پہلو اوجھل نہیں رکھتے جبکہ مغربی میڈیا یک طرفہ اور جامد تصویر کشی کرتی ہے اور مسلمان معاشرہ جو متنوع اور متحرک ہے لیکن اُسے ساکت و جامد (تنگ نظر) کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ مغربی میڈیا اپنی دقیانوسی رپورٹنگ کے ذریعے ان واضح حقائق کو مسخ کرتا ہے۔مسلمانوں کے بارے میں خبروں کا انتخاب اور اِنہیں پیش کرنے کا عمل اکثر ناقص ہوتا ہے۔ جس کا مقصد مسلمانوں کو نفرت کی علامت‘ جرم اور تشدد کی حمایت کرنے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ مغربی میڈیا کے ایجنڈے کو مرتب کرنے والوں کی سوچ بدلنا ہوگی جن کی یک طرفہ حکمت ِعملی کی وجہ سے غیر متناسب خبریں اور تبصرے پیش کئے جاتے ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مغربی نقطہ نظر تب بدلے گا جب مغربی میڈیا مسلمانوں کو صرف مذہب کی نظر سے دیکھنا چھوڑ دے گا۔ مغربی ذرائع ابلاغ کو دیکھنا ہوگا کہ دنیا میں زیادہ تر واقعات اکثر سیاسی‘ سماجی اور معاشی عوامل کا نتیجہ ہوتے ہیں اور انہیں صرف مذہب کے لیبل سے تعبیر کرنے کی کوئی بھی کوشش یا تدبیر پہلے ہی سے پیچیدہ عمل کو مزید پیچیدہ بنا دیتی ہے۔ مغربی صحافیوں کو مسلمانوں کے واقعات اور واقعات کی تشریح کے لئے مذہب کو بنیاد کے طور پر استعمال کرنے سے اجتناب کرنے کی ترغیب دینی چاہئے۔ صحافیوں اور میڈیا کو مسلمانوں کی نمائندگی پر وہی صحافتی اصول لاگو کرنے چاہئیں جن کا اطلاق میڈیا دیگر مذاہب اور غیرمسلم معاشروں میں نسلی اور مذہبی برادریوں سے متعلق خبروں اور تبصروں کے وقت کرتا ہے‘یعنی مغربی میڈیا کو دوغلاپن سے بچنا ہوگا اور اسلامی معاشرے کو تعصب کی نظر سے دیکھنے کی روش بھی ترک کرنی ہوگی جہاں تک مغربی میڈیا کے رویئے کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اکثر معاملات میں وہ حقیقی مناظر کو تعصب کے آئینے میں دیکھتے ہوئے دھندلا کردیتے ہیں جسے سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے اور یوں معاشروں کے درمیان فاصلے بڑھتے رہتے ہیں جو عالمی امن کے لئے بھی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں اور اس کی تمام تر ذمہ داری مغربی میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ رویے پر عائد ہوتی ہے‘ جس سے اجتناب وقت کی ضرورت ہے۔
 (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: امانت علی چودھری۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)