ویب رپورٹس کے مطابق جرمنی کی مائنز یونیورسٹی کے آتش فشاں پہاڑوں سے متعلقہ علوم کے ماہر کرسٹوف ہیلو کے مطابق، ''آتش فشانی کی دو تہائی سرگرمیاں سمندروں کی تہہ میں ہوتی ہیں۔‘‘
پروفیسر ہیلو کے مطابق زمین کی سطح پر یا کسی سمندر کی تہہ میں آتش فشانوں کے بننے کی وجوہات میں کوئی خاص فرق نہیں۔ جب زمین کے اندر کی دوسری ابلتی تہہ چٹانی پتھروں کو پگھلاتی ہے یعنی زمین کی سطح کے ٹھوس حصے کو، تو پگھلتا ہوا لاوا باہر آنے لگتا ہے۔
رپورٹس کے مطابق پروفیسر ماتھر کا کہنا ہے کہ زیادہ تر زیرسمندر آتش فشاں مختلف بڑے سمندروں کے کناروں کے قریب ہیں، جہاں دو ٹیکٹونک پلیٹیں ایک دوسرے کو دباتی ہیں۔
دو ارضیاتی پلیٹوں کا آپس میں ٹکراؤ آتش فشاں پیدا کرتا ہے۔ اگر یہ دنوں پلیٹیں سمندر کے اندر مل رہی ہوں، تو آتش فشاں سمندر کے اندر پیدا ہوتے ہیں۔ پروفیسر ہیلو کا یہ بھی کہنا ہے کہ کسی ایک ٹیکٹونک پلیٹ میں ہونے والی آتش فشانی بھی ایک نئے آتش فشاں کی تخلیق کا سبب بن سکتی ہے۔
زیرسمندر کسی آتش فشاں کے پھٹنے کے اثرات کا تعلق اس بات سے ہے کہ یہ آتش فشاں سمندر کی سطح سے کتنا دور ہے؟ اگر پھٹنے والے آتش فشاں اور سمندر کی سطح کے درمیان فاصلہ زیادہ ہو، تو آتش فشاں کے اوپر موجود پانی ایک ڈھکن کا سا کردار ادا کرتا ہے۔
ماہر ارضیات ڈیوڈ پائل کا کہنا ہے کہ اگر پگھلی ہوئی چٹان کا کوئی ٹکڑا سمندر کی سطح سے دو کلومیٹر نیچے ہو، تو وہ سمندر کے ٹھنڈے پانی کو چھوتے ہی تیزی سے ٹھنڈا ہو جائے گا، جب کہ اس کے بدلے میں پانی گرم ہو گا لیکن بھاپ نہیں بنے گا۔
ان کا تاہم کہنا ہے کہ اگر آتش فشانی کی سرگرمی بہت بڑی ہو اور پانی بھاپ میں تبدیل ہوجائے، تو تھوڑا سا پانی بھی بھاپ میں بدل کر اپنا حجم کئی گنا تک بڑھا لیتا ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر پائل کے مطابق، ''بھاپ کے دھماکے بہت تباہ کن ہوتے ہیں کیوں کہ پانی کا تھوڑا سا حجم بھاپ کے بہت بڑے حجم کا باعث بنتا ہے۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ سونامی کے خطرات کو ایک طرف رکھ بھی دیا جائے، تو سمندر سے نکلنے والی راکھ ملی بھاپ انسانی صحت پر نہایت مضر اثرات ڈال سکتی ہے۔