سوات بریکوٹ میں بدھ مت کی قدیم ترین عبادت گاہ دریافت

سوات: پاکستانی اور اطالوی ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی ایک ٹیم نے وادی سوات کے شہر بریکوٹ میں بدھ مت کی قدیم ترین عبادت گاہ دریافت کرلی ہے جس کا باقاعدہ اعلان گزشتہ ہفتے ایک پریس ریلیز میں کیا گیا ہے۔

اگرچہ اس علاقے کے دوسرے آثارِ قدیمہ 150 اور 100 قبلِ مسیح کے زمانے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ بدھ مت کی یہ عبادت گاہ ان سے بھی زیادہ قدیم ہے۔

ان کا خیال ہے کہ یہ تیسری صدی قبلِ مسیح میں چندرگپت موریا کے زمانے میں تعمیر کی گئی تھی۔ تاہم اس خیال کی حتمی تصدیق ریڈیو کاربن تاریخ نگاری کے بعد ممکن ہوگی جس میں کچھ وقت لگے گا۔

بریکوٹ (Barikot) اس زمانے میں علاقہ گندھارا تہذیب کے اہم شہروں میں بھی شامل تھا جسے قدیم یونانی اور اطالوی مؤرخین نے ’’بزیرا‘‘ اور ’’واراستھانا‘‘ بھی لکھا ہے۔

اپنے منفرد ماحول کی بنا پر یہاں سال میں دو مرتبہ گندم اور چاول کی فصلیں اگائی جاتی تھیں۔ یہ فصلیں اتنی زیادہ ہوتی تھیں کہ ان کی اضافی پیداوار دوسرے علاقوں میں بھی فروخت کی جاتی تھی۔

بریکوٹ میں قدیم ترین بدھ مت عبادت گاہ سے ملحق آثارِ قدیمہ۔ (فوٹو: کفوسکاری یونیورسٹی)

قدیم بدھ مت کے اہم مراکز میں شامل ہونے کے باوجود، اب تک یہ پوری طرح واضح نہیں کہ بریکوٹ میں بدھ مت کی آمد کیسے ہوئی اور وہ کس طرح یہاں مقبول سے مقبول تر ہوتا چلا گیا۔

ماہرینِ آثارِ قدیمہ کا کہنا ہے کہ بدھ مت کے قدیم ترین مقبرے سے اس بارے میں جاننے میں بھی بہت مدد ملے گی۔

مؤرخین لکھتے ہیں کہ سکندرِ اعظم جب چوتھی صدی قبلِ مسیح میں ہندوستان پر حملہ کرنے کےلیے یہاں سے گزرا تو زرخیز مقام دیکھ کر اس نے پہلے بریکوٹ پر قبضہ کیا اور اپنی فوج کےلیے وافر مقدار میں گندم اور دیگر اناج جمع کرنے کے بعد آگے بڑھا۔

قدیم زمانے کے زرخیز بریکوٹ میں گندم اور چاول کی وافر کاشت ہوتی تھی۔ (فوٹو: کفوسکاری یونیورسٹی)

واضح رہے کہ پاکستانی اور اطالوی ماہرین کے وسیع البنیاد اشتراک سے پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں گندھارا تہذیب کے آثارِ قدیمہ پر 1955 سے کام جاری ہے جسے متعدد ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی ثقافتی اداروں کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔

یہ ایشیا میں آثارِ قدیمہ کا سب سے پرانا عالمی مشن بھی ہے جسے 67 سال ہونے والے ہیں۔ اس کے موجودہ سربراہ ڈاکٹر لیوکا ماریا ہیں جن کا تعلق کفوسکاری یونیورسٹی، وینس سے ہے۔

بریکوٹ میں آثارِ قدیمہ کی تلاش کا یہ سلسلہ اس سال بھی جاری رہے گا کیونکہ ماہرین کو یہاں سے مزید دریافتوں کی پوری امید ہے۔