جنوبی افریقہ: کھلے جنگل میں شیر ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اسے کم کرنے کے لیے سائنسدانوں نے انسانوں میں محبت اورلگاوٹ پیدا کرنے والے ہارمون کا تجربہ کیا ہے جس کے نتائج بہت حوصلہ افزا ثابت ہوئے ہیں۔
سائنسدانوں نے ’لوو ہارمون‘ آکسی ٹوسِن کی پھوار جب شروں پر ڈالی تو اس کے فوائد سامنے آئے ہیں۔
اس سے قبل انسانوں میں یہ ہارمون ، سماجی بندھن، دودھ پلانے اور دیگر روابط میں اس کا اہم کردار سامنے آیا ہے۔ پھر 2017 میں ایک دوسرے سے جھگڑتی سیلوں پر آکسی ٹوکسن کا ٹیکہ لگایا تو وہ قدرے پرسکون ہوئے اور لڑائی کم ہونے لگی۔
لیکن جنگل کے بادشاہ پر ان تجربات کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟
تیزی سے ختم ہوتے شیر اب 20 ہزار کی تعداد میں ہی بچے ہیں۔ ان کا شکار کیا جاتا ہے، کبھی وہ دیگر جانداروں پر حملہ کرتے ہیں اور یوں ان کی تعداد تیزی سے کم ہورہی ہے کیونکہ مقامی افراد اپنےمویشیوں کے تحفظ میں بھی انہیں ہلاک کررہے ہیں۔
شیروں کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں انسانوں اور دیگر پرخطر مقامات سے دور رکھا جائے۔
اس کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ انہیں کسی اور دوردراز مقام تک منتقل کیا جائے تاکہ وہ آبادی اور دیگر مویشیوں سے دور رہ سکیں۔ لیکن ان کی غضبناک کیفیت کی بنا پر یہ بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ اسی لیے پریم کیمیکل کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔
تجرباتی طور پر جامعہ مِنی سوٹا کے سائنسدانوں نے ایک دلچسپ تجربہ کیا جس کا مقصد شیروں کے درمیان سماجی بندھن مضبوط کرنا تھا۔ انہیں جنوبی افریقہ کے ایک وائلڈ لائف پارک سے ایک جنگلے تک لے جانے کی کوشش کی جہاں پہلے ہی کچھ شیر موجود تھے اور وہ اس علاقے کو اپنی ملکیت سمجھتے تھے۔
جنگلی حیات کے پارک سے شیروں کو تازہ گوشت سے لبھاتے ہوئے ایک بڑے جنگلے میں لایا گیا ۔ جیسے ہی وہ اس میں داخل ہوئے ان پر آکسی ٹوسن کا اسپرے کیا گیا۔
اس سےقبل وہ خونخوار تھے لیکن جیسے ہی ان پر اسپرے کیا گیا تمام 23 شیر پرسکون ہوگئے اور انہوں نے نئے ساتھیوں کو قبول کرلیا۔
اسی طرح تمام شیروں کو کھیلنے کے لیے گیند دی گئی تو ان کا اوسط فاسلہ جو 22 فٹ تھا کم ہوکر 11 فٹ تک آگیا اور کوئی جھگڑا شروع نہیں ہوا۔
یہ ایک زبردست کامیابی ہے۔ تاہم یہ سارے پرسکون شیر اس وقت پٹڑی سے اتر گئے جب دوبارہ ان کے سامنے گوشت ڈالا گیا۔