نظرانداز اعلیٰ تعلیم

تعلیم کے بغیر بہتر مستقبل ممکن نہیں یہی وجہ ہے کہ متوسط اور غریب طبقات سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت سرکاری جامعات (پبلک سیکٹر یونیورسٹیز) سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرتی ہے کیونکہ ایسا کرنا اُن کے لئے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا واحد راستہ (ذریعہ) ہے اور یہی اِن طبقات سے تعلق رکھنے والوں کی واحد امید بھی ہے تاہم پاکستان بھر میں‘ جامعات کو مالی مشکلات اور حکومت کی جانب سے مالی وسائل کی فراہمی میں کٹوتیوں کا سامنا ہے۔ جامعہ کراچی‘ جو کہ پاکستان کی بڑی اور پرانی یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے‘ سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ چالیس ہزار طلبہ اور پچاس سے زیادہ مضامین پڑھانے والی اِس سرکاری یونیورسٹی کی مالی مشکلات سرفہرست ہیں اور اِنہی مشکلات کی وجہ سے بہترین اساتذہ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں جسے عرف عام میں ’برین ڈرین‘ کہا جاتا ہے۔ اگر حکومت سرکاری جامعات کی مالی سرپرستی کرنے سے ہاتھ کھینچ لے گی تو اندیشہ ہے کہ اساتذہ کی بڑی تعداد اپنے بہتر مستقبل اور مالی آسودگی کے لئے بیرون ملک منتقل ہو جائے گی۔

مالی مشکلات کی وجہ سے فیکلٹی ممبران (اساتذہ) کی بھرتی اور ترقی کے عمل میں تاخیر ہوتی ہے اور جو کام ہفتوں میں ہو جانا چاہئے اُس کی تکمیل میں چھ سے آٹھ سال لگتے ہیں لیکن ایسا صرف کراچی یونیورسٹی ہی کے ساتھ ہو رہا ہے جبکہ سندھ کی دیگر یونیورسٹیوں کو محکمانہ امور نمٹانے میں چھ ماہ سے ایک سال کا وقت لگتا ہے۔ کم فنڈنگ‘ جوابدہی کا فقدان اور معیارات کو نظر انداز کرنے سے بیوروکریٹک تاخیر ہوتی ہے‘ جس سے کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ کو مایوسی ہوتی ہے۔ پچیس سال سے زائد کی خدمات کے حامل فیکلٹی اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے ریٹائر ہو رہے ہیں۔ گورننس میں اصلاحات کی کوششیں کی گئیں جیسا کہ ’سندھ یونیورسٹیز ترمیم 2018ء‘ نے اساتذہ کی بھرتی کے عمل کو آسان بنایا لیکن کراچی یونیورسٹی کے معاملات پالیسی اصلاحات کے بغیر جاری ہیں۔ سال 2019ء میں چارسو سے زیادہ فیکلٹی ممبران نے اگلے کیڈر کے لئے ترقی کی درخواست دی لیکن اُن کی ترقیاں رکی ہوئی ہیں اور ایسے سینکڑوں اساتذہ ہیں جو بنا ترقی اگلے پانچ سال میں ملازمت سے فارغ ہو جائیں گے لیکن انہیں سلیکشن بورڈ کے سامنے اپنا کیس پیش کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔

 حال ہی میں انوائرمینٹل سائنسز کے ڈاکٹر ظفر اقبال عدالتی حکم کے باوجود اسسٹنٹ پروفیسر کی پچیس سال خدمات کے بعد ریٹائر ہو گئے۔ اسی طرح فارمیسی کے ڈاکٹر امیر احسن بھی بورڈ کے انتظار میں بقائی‘ ضیاء الدین اور آخر میں کراچی یونیورسٹی میں خدمات انجام دینے کے بعد اکتوبر میں ریٹائر ہونے والے ہیں۔ یونیورسٹیوں کو صرف یونیورسٹی ایکٹ کی پیروی کرنے کی ضرورت ہے جس میں ایک موزوں امیدوار کو منتخب کرنے کے لئے بورڈ کے آٹھ اراکین کے ساتھ تین ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس کی بجائے کراچی یونیورسٹی ڈینز‘ چیئرپرسنز‘ غیر ملکی ماہرین کی رپورٹس اور سیکرٹری بورڈز و انتظامیہ ’سرخ فیتہ‘ کو ترجیح دیتی ہے۔ جامعہ کراچی کو موجودہ بیوروکریٹک ذہنیت پر نظر ثانی کرنے اور اس مفروضے سے جان چھڑانے کی ضرورت ہے جو کہ ریڈ ٹیپ معیارات کا متبادل ثابت ہو۔ یونیورسٹیوں کے اندر امتیازی سلوک ختم ہونا چاہئے بالخصوص ملازمت کے یکساں طریقہ کار اور مواقعوں پر عمل کیا جانا چاہئے۔

 کسی ملک کے لئے اِس سے زیادہ بدقسمتی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ اُس کے ہاں اساتذہ بھوک ہڑتال اور احتجاج پر مجبور ہوں اور اُنہیں اپنا حق مانگنے کے لئے عدالتوں سے رجوع کرنا پڑے۔ قومی فیصلہ ساز ایک طرف اِس حقیقت کو تو تسلیم کرتے ہیں کہ اساتذہ کے بغیر ملک نہیں چل سکتا لیکن وہ اساتذہ کو خاطرخواہ اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں۔ جامعات کی مالی مشکلات صرف کراچی یونیورسٹی ہی کا مسئلہ نہیں بلکہ ملک کے دیگر صوبوں اور کم وبیش سبھی سرکاری جامعات کی حالت ایک جیسی ہے جس کی وجہ سے یقینا تعلیم کا معیار متاثر ہو رہا ہے۔ جامعات تعلیم کا مرکز ہوتے ہیں۔ جامعات تحقیق اور تنقیدی سوچ کے ذریعے معاشرے کی تعمیروترقی میں کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں اور جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ نئی دنیا میں صرف تعلیم ہی کی بدولت مقام حاصل کیا جا سکتا ہے۔

 کسی بھی یونیورسٹی کو ’بیوروکریسی‘ کے حوالے نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہی یونیورسٹی کے معاملات بیوروکریسی کی مخصوص سوچ اور کاروباری نکتہئ نظر کے عکاس ہونے چاہئیں۔ پاکستان کو ایسی جامعات کی ضرورت ہے جہاں تحقیق کی سرپرستی ہو۔ جہاں اساتذہ کے کردار کو سراہا جائے اور جہاں درس و تدریس کے عمل کو خاطرخواہ پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فیضان نقوی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)