ٹرمپ کا مؤقف ہے کہ جنگوں کو بھڑکانے کیلئے جاری خونی تجارت کا سلسلہ رکنا چاہئے۔ دریں اثنا‘ امریکی محکمہ خزانہ (یو ایس ڈی ٹی) کی مالیاتی انٹیلی جنس اور دفتر برائے غیر ملکی اثاثہ جات کنٹرول (او ایف اے سی) نے تین بنیادی اہداف کا تعین کر رکھا ہے جس کے ذریعے وہ عالمی مالیاتی نظام میں امریکی ڈالر کی غالب پوزیشن کو نہ صرف برقرار رکھے ہوئے ہیں بلکہ اس کا فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔ حکمت عملی کے تحت اقتصادی پابندیاں عائد کرنا‘ اثاثے منجمد کرنا اور امریکہ کے زیر کنٹرول مالیاتی نظام تک رسائی محدود کی جاتی ہے‘ ایسا کرتے ہوئے‘ او ایف اے سی دیگر ممالک پر اثر و رسوخ اور دباؤ ڈالنے کیلئے امریکی ڈالر کو جیو پولیٹیکل آلے کے طور پر مؤثر طریقے سے استعمال کرتا ہے۔ مارچ 2022ء میں‘ او ایف اے سی نے روس کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کیں‘ جس سے روس کے مرکزی بینک کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر منجمد ہوگئے۔ مزید برآں‘ امریکہ نے ایران (120 ارب ڈالر)‘ افغانستان (7 ارب ڈالر)‘ شمالی کوریا‘ سوڈان‘ کیوبا اور شام پر بھی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں‘ جس کے نتیجے میں مالیاتی اداروں اور دیگر دائرہء اختیار میں موجود اربوں ڈالر کے اثاثے منجمد ہیں۔سال 2009ء میں برازیل‘
روس‘ بھارت اور چین نے بین الحکومتی تنظیم تشکیل دی۔ 2010ء میں جنوبی افریقہ اس کا حصہ بنا اور اس گروپ کا نام بدل کر برکس رکھ دیا گیا۔ 2014ء میں برکس نے 100 ارب ڈالر کا نیا ترقیاتی بینک (این ڈی بی) قائم کیا اور اضافی 100 ارب ڈالر کا ریزرو کرنسی پول تشکیل دیا۔ یکم جنوری 2024ء کو مصر‘ متحدہ عرب امارات‘ ایتھوپیا اور ایران باضابطہ طور پر اس بلاک میں شامل ہو گئے۔ 2 ستمبر 2024ء کو ترکی نے باضابطہ طور پر برکس رکنیت کے لئے درخواست دی جبکہ سعودی عرب بھی اس میں شمولیت پر غور کر رہا ہے۔ جن ممالک نے برکس میں شمولیت میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے یا پہلے ہی رکنیت کے لئے درخواست دے چکے ہیں ان میں افغانستان‘ الجزائر‘ انگولا‘ آذربائیجان‘ بحرین‘ بنگلہ دیش‘ بیلاروس‘ بولیویا‘ برکینا فاسو‘ کیمرون‘ کولمبیا‘ کانگو‘ کیوبا‘ السلواڈور‘ استوائی گنی‘ گھانا‘ انڈونیشیا‘ عراق‘ قازقستان‘ کویت‘ لاؤس‘ لیبیا‘ ملائیشیا‘ مالی‘ میانمار‘ نائیجیریا‘ شمالی کوریا‘ پیرو‘ سینیگال‘ سربیا‘ سری لنکا‘ شام‘ تیونس‘ یوگنڈا‘ ازبکستان‘ وینزویلا‘ ویتنام‘ یمن اور زمبابوے شامل ہیں۔ برکس گروپ اب عالمی معیشت کا ایک چوتھائی سے زیادہ حصہ رکھتا ہے اور تقریباً 4.4 ارب افراد کی نمائندگی کرتا ہے جو دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی ہے جبکہ امریکہ کی زیر قیادت مغرب کی آبادی صرف 735 ملین ہے۔ برکس تیزی سے ایک جرأت مندانہ جغرافیائی سیاسی مؤقف اختیار کر رہا ہے اور روایتی مغربی قیادت والے عالمی نظام کو چیلنج کر رہا ہے اور یہ ممالک متبادل مالیاتی نظام تلاش کر رہے ہیں۔برازیل کے صدر لوئیز اناسیو ڈی سلوا نے ایک نئی برکس کرنسی بنانے کی تجویز پیش کی ہے۔ اس اقدام کے ساتھ زیر بحث دیگر مالیاتی تجاویز کا مقصد امریکی ڈالر پر انحصار کم کرنا ہے۔ ممکنہ متبادل میں برکس کرپٹو کرنسی یا رکن ممالک کی کرنسیوں پر مشتمل کرنسی ہو سکتی ہے۔ ٹرمپ کی فیصلہ کن کامیابی اور ڈالر کی صورت ہتھیار کے استعمال کو دیکھتے ہوئے‘ پاکستان کو جغرافیائی سیاسی تناؤ اور ممکنہ اقتصادی پابندیوں کے خطرے کو کم کرنے کیلئے اپنے ذخائر کو متنوع بنانا ہوگا۔ سونے‘ بٹ کوائن اور چاندی
جیسے اثاثوں کو ذخیرہ کرکے پاکستان زیادہ لچکدار مالیاتی حکمت عملی تشکیل دے سکتا ہے‘ اس معاشی غیر یقینی صورتحال کے دوران سونا طویل عرصے سے کرنسی کو سہارا دینے کا ایک مستحکم ذریعہ ہے اور کرنسی کی قدر میں کمی کے خلاف یہ مضبوط تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔ بٹ کوائن‘ اگرچہ غیر مستحکم ہے لیکن یہ غیر مرکزی ڈیجیٹل اثاثے کے طور پر کرنسی کی منفرد خصوصیات رکھتا ہے جو روایتی مالیاتی نظاموں اور جغرافیائی سیاسی دباؤ کے اثر و رسوخ سے بالاتر ہے۔ سونے کے مقابلے میں چاندی‘ صنعتی اجناس کے طور پر اپنے دوہرے کردار کے ساتھ‘ اس تنوع میں اضافے کا باعث ہے اور دیگر اثاثوں کے مقابلے میں کرنسی مارکیٹ میں آنے والی تبدیلیوں کا جواب دینے کی سکت رکھتی ہے۔ پاکستان کو اپنا مالیاتی لائحہ عمل ازسرنو تشکیل دینا چاہئے۔ ڈالر کو ہتھیار کی صورت استعمال کرنے کے جواب میں پاکستان کی مالی خودمختاری مضبوط بنائی جانی چاہئے۔ مقصد یہ ہونا چاہئے کہ ایک ہی ذخیرے (ریزرو) اثاثے پر انحصار کم کیا جائے۔ یہ نکتہء نظر غیر متوقع عالمی معاشی تبدیلیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے مالیاتی تحفظ فراہم کریگا‘ جس سے پاکستان کے معاشی مستقبل کو زیادہ مستحکم‘ محفوظ اور لچکدار بنایا جا سکتا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ ابوالحسن امام)