اگرچہ موسمیاتی تبدیلیوں اور انتہائی موسمی حالات کے نتیجے میں آنیوالی قدرتی آفات پاکستان کی غلطی نہیں ہیں کیونکہ پاکستان اُن ممالک کی فہرست میں شامل نہیں جو ”گلوبل وارمنگ“ کیلئے ذمہ دار ہیں؛ ذہن نشین رہے کہ گلوبل وارمنگ ماحول دشمن گیسوں کے اخراج کو کہا جاتا ہے۔ پاکستان کیلئے موسمیاتی تبدیلیاں انتہائی مہلک ہیں اور اگر ماحول دوست منصوبہ بندی کی جائے تو بہت سی تبدیلیاں ممکن ہیں‘سوات (خیبرپختونخوا) سے لے کر سیہون شریف (سندھ) تک‘ حالیہ سیلاب نے وسیع علاقے کو متاثر کیا ہے‘ سیلاب کی وجہ سے پچاس سال میں ہوئی تعمیروترقی ملیامیٹ ہو گئی ہے جبکہ زرعی معیشت و معاشرت کو ناقابل تلافی جانی و مالی نقصانات بھی ہوئے ہیں‘ اگر فیصلہ سازوں نے کچھ بنیادی قوانین کی خلاف ورزی نہ کی ہوتی اور آبی گزرگاہوں پر تجاوزات بنانے سے گریز کیا ہوتا تو بارشوں کا پانی رکاوٹ کی وجہ سے دریا کے کناروں سے باہر نہ آتا اور بغیر کسی رکاوٹ کے بہتے ہوئے گزر جاتا جس سے بہت کم نقصانات ہو سکتے تھے۔ اگر ہم دریائے سوات کی مثال کو لیں تو سیلاب کا پانی دریا کی حدود میں تعمیرات کو کاغذ کی طرح بہا لے گیا۔ وہ کثیرالمنزلہ عمارتیں ایسے گرتی دیکھی گئیں جیسا کہ وہ گتے سے بنی ہوئی ہوں۔ ان میں سے زیادہ تر عمارتیں ہوٹلوں کی تھیں‘ جو دریائے سوات کے کنارے تعمیر کئے گئے تھے اور اِن کثیر المنزلہ ہوٹلوں کی تعمیر کی باقاعدہ حکومتی اداروں نے اجازت دے رکھی تھی۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ اگر موسمیاتی تبدیلیوں کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا تو ایسی موسلادھار بارشوں کے نقصانات سے ضرور بچا جا سکتا ہے‘ جو اپنی فطرت میں رحمت ہیں لیکن اِن کو سمجھنے میں غلطی کرنے کی وجہ سے یہ ”زحمت نما“ دکھائی دے رہی ہیں۔ شاید اِس لمحہئ موجود میں فیصلہ ساز حال و مستقبل کے تقاضوں کا اُسی شدت سے ادراک کریں جس شدت سے اِس کی ضرورت ہے۔ جو علاقے حالیہ مون سون سیزن اور سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں اُن میں دوبارہ ایسی ہی شدید موسمیاتی صورتحال پیش آ سکتی ہے اِس لئے سیاسی دباؤ میں آئے بغیر دریا کی حدود میں تعمیرات کی دوبارہ اجازت نہ دی جائے۔ جب ”ریور پروٹیکشن ایکٹ 2014ء موجود ہے تو بلڈنگ کنٹرول اتھارٹیز کو دریاؤں کے اندر یا قریب غیر قانونی تعمیرات کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں قوانین و قواعد تو موجود ہوتے ہیں لیکن اِن پر خاطرخواہ عمل درآمد نہیں ہوتا۔گزشتہ تقریباً ایک دہائی میں‘ تباہ شدہ غیر قانونی انفراسٹرکچر کی لاتعداد تعمیر نو اور تزئین و آرائش ہوئی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ قانون شکنی وہی کرتے ہیں جنہوں نے یہ قوانین بنائے ہوتے ہیں۔ قانون میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ کسی بھی عمارت کی تعمیر دریا کے کناروں کے درمیان کی حدود میں نہیں ہونی چاہئے لیکن اِس قانون کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے‘ سینکڑوں ڈھانچے دریا کے کناروں پر اور کچھ دریا کے بیچوں بیچ بنائے گئے۔ قانون کے مطابق اس طرح کی خلاف ورزی کرنے والوں کیخلاف مقدمہ چلانے کیلئے خصوصی عدالتیں قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ کوئی بھی سرکاری اہلکار سیاسی دباؤ میں آ کر قانون شکنی کا مرتکب نہ ہو۔ تجاوزات کے خلاف فیصلہ کن لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ مسئلہ صرف خیبرپختونخوا کے دریاؤں تک محدود نہیں بلکہ دیگر صوبوں کی بھی کم و بیش یہی صورتحال ہے کہ وہاں کے نشیبی علاقوں میں دریاؤں کے کناروں پر تعمیرات کیلئے معیار تو مقرر ہیں لیکن اُن معیارات پر بہت کم عمل درآمد ہوتا ہے۔موسمیاتی تبدیلیوں کے شدید اثرات سے محفوظ رہنے کیلئے ضروری ہے کہ تمام صوبے مل کر ماحولیاتی تحفظ سے متعلق مربوط لائحہ عمل تشکیل دیں اور اِس بات کو لازم بنایا جائے کہ جب تک اداروں سے کلیئرنس نہیں ملتی اُس وقت تک کوئی بھی صوبائی یا ضلعی حکومت دریاؤں کے کناروں پر تعمیرات نہیں کر سکے گی اور اِس سلسلے میں قواعد پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ’ہائی وے اتھارٹیز اور محکمہئ آبپاشی کے ’این او سیز‘ کو بھی نظر انداز کر دیا جاتا ہے یا ان سے انکار کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر پل اور سڑکیں جو بہہ گئی ہیں پانی کے بہاؤ سے بچ سکتے تھے اگر مناسب طریقے سے مٹی کی جانچ کی رپورٹ اور تعمیر سے قبل فٹنس سرٹیفکیٹ حاصل کئے جاتے۔ دیہی اور شہری دونوں علاقوں میں سیلاب اور بہتے ہوئے پانی کا شکار نشیبی علاقوں میں تعمیرات کے معیارات برقرار رکھے جانے چاہیئں۔ پل اور سڑکیں سیلاب کو برداشت کرنے کیلئے کافی اونچے اور مضبوط ہونے چاہئیں‘ جب حکام اس طرح کے بنیادی معیارات کو نظر انداز کرتے ہیں تو فطرت کو تمام تباہی کا ذمہ دار ٹھہرانا جائز نہیں ہے‘ ماضی میں ہائی وے حکام اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے جہاں جہاں غفلت برتی گئی اُس کے نتائج سب کے سامنے آ چکے ہیں۔ اِس منظرنامے میں مقامی حکومتیں اور انتظامیہ سانحات سے خود کو بری الذمہ نہیں کر سکتیں‘ بہت سے معاملات میں‘ متعلقہ حکام صرف نوٹس جاری کرتے ہیں اور ایسی خلاف قانون تعمیرات روکنے کے لئے ٹھوس کام نہیں کرتے ان سیلابوں کے بعد عمارتوں کی تعمیر اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کو ریگولیٹ کرنے کیلئے سخت اقدامات کی ضرورت ہے جو کاغذوں پر تو اچھے لگتے ہیں لیکن بعد میں اِن کے نقصان دہ اثرات سبھی کو برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر ظاہر نواز خان‘ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)