کربلا کے بعد: کربلا سے آگے

سن 61 ہجری‘ نواسہئ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور آپؓ کے اہل خاندان اور رفقا کی کربلا (عراق) میں شہادت کو 1382 سال گزر چکے ہیں لیکن اِس حق و باطل کے درمیان معرکے کی یاد آج (1444ہجری) بھی زندہ ہے۔ شہادت اِمام حسین رضی اللہ عنہ یوم عاشور یعنی دس محرم الحرام سن اکسٹھ ہجری کو پیش آیا جس کے بعد سے ’یوم عاشور‘ کو خانوادہ رسالت علیہم السلام کی قربانیوں سے خصوصی نسبت ہو گئی ہے تاہم اہل محبت و عقیدت صرف ’یوم عاشور‘ ہی نہیں مناتے بلکہ امام عالی مقامؓ کا چہلم (20صفر المظفر) بھی پوری عقیدت و احترام اور مذہبی جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ اِس سلسلے میں ماہئ صفر کے آغاز سے آٹھ ربیع الاوّل تک‘ عاشور کے بعد رونما ہونے والے واقعات کی یاد آوری کی جاتی ہے۔ رواں سال (سترہ ستمبر دوہزاربائیس بمطابق بیس صفرالمظفر) بھی چہلم امام حسینؓ کی مناسبت سے لاکھوں زائرین جنوبی عراق کے شہر کربلا میں اربعین (چہلم ِامام) منانے کے لئے جمع ہوئے اور شہدائے کربلا کہ جن پر پانی بند کر دیا گیا تھا اُنہیں اپنے آنسوؤں کے نذرانے پیش کئے۔ چودہ سو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن کربلا کے واقعات کا تذکرہ جاری ہے کیونکہ اِس واقعہ میں متعدد اسباق پوشیدہ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کربلا شناسی ہر مکتبہ فکر و مسلک کے لئے اہمیت رکھتی ہے۔پاکستان بھر میں چہلم ِامام منایا گیا‘ جس میں متعدد شہری اور دیہی مراکز میں عزاداروں اور سوگواروں کے اجتماعات (مجالس عزأ) اور ماتمی جلوس برآمد ہوئے۔کربلا کے واقعات پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب نواسے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی مزاحمت و استقامت کی داستان اور ایک زبردست قسم کی یاد دہانی ہے کہ چاہے مشکلات جس قدر بھی ہوں لیکن سچائی اور اصولوں پر سمجھوتہ یا مصلحت سے کام نہیں لینا چاہئے بلکہ قربانیوں سے ایک ایسی تاریخ رقم کرنی چاہئے جو رہتی دنیا تک اہل حریت کے لئے مشعل راہ اور راہ نما قرار پائے۔ تفہیم کربلا نامی ایک کتاب میں آیت اللہ سید سعید الحکیم کی اصل تصنیف سے اختصار اور اخذ کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ ”امام حسینؓ  ایک مثالی شخصیت تھے۔ اُنہوں نے عوام کے جذبات کی ترجمانی کی اور اُنہیں وقت کے بدترین حاکم سے نجات دلانے کے لئے استقامت کا مظاہرہ کیا۔  آج کے رہنماؤں میں یہی خوبی ہونی چاہئے کہ وہ عوام کے مفادات کے لئے اپنی ذات کی قربانی پیش کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ امام عالی مقامؓ  کو حکومت یا امارت نہیں چاہئے تھی لیکن اُنہوں نے اسلام کی غلط تشریحات کرنے کے عمل کو ہمیشہ کے لئے دفن کرنا تھا جس میں وہ اور اُن کے جانثار ساتھی کامیاب ہوئے ہیں۔کربلا کے بعد امام حسینؓ کی چھوٹی بہن حضرت بی بی زینب رضی اللہ عنہا نے خواتین‘ بچوں اور ایک واحد زندہ بچ جانے والے بالغ مرد‘ حضرت امام حسینؓ کے بیمار بیٹے حضرت علی بن حسین المعروف امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کے ہمراہ کربلا سے کوفہ و شام اور بعدازاں کوفہ و شام سے براستہ کربلا مدینہ منورہ تک کی مشکل منازل طے کیں جبکہ وہ صدمات اور جسمانی تھکاوٹ سے چکنا چور تھیں لیکن اِس پورے سفر میں اُن کی ایک بھی نماز قضا نہیں ہوئی! یہی وجہ ہے کہ بی بی زینب سلام اللہ علیہا کی قربانیوں کو کربلا کے بعد اُسی طرح یاد کیا جاتا ہے جس طرح امام حسین رضی اللہ عنہ اُور آپ کے جانثار رفقا (رضوان اللہ اجمعین) کی قربانیوں کو یاد کیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ تاقیامت (تاابد) جاری رہے گا۔ کربلا نے اسلام کی تاریخ اور سماج کو بدل کر رکھ دیا ہے اور اِس واقعے کا اثر ہر شعبہئ زندگی پر دیکھا جا سکتا ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: فرحان بخاری۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)