افغانستان میں امن کیوں ضروری؟

گزشتہ دنوں شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس کے رکن ملکوں میں علاقائی تعاون کے حوالے سے گفتگو بھی ہورہی ہے۔ کانفرنس میں سربراہانِ مملکت کے درمیان ملاقاتوں کا سلسلہ بھی ہوا جس میں وزیرِاعظم پاکستان شہباز شریف کی روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات پاکستان کے اندرونی سیاسی حالات کی وجہ سے تبصروں میں ہے۔شنگھائی تعاون تنظیم کا قیام 1996 میں علاقائی تعاون کو فروغ دینے لئے عمل میں لایا گیا تھا۔ اس تنظیم کے مقاصد میں خطے میں باہمی تعاون کی فضا قائم کرنا شامل تھا۔اگر پاکستان کے جغرافیائی محل وقوع کو دیکھا جائے تو یہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ملک ہے۔ بھارت کو اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے گیس پائپ لائن کی ضرورت ہے جو ایران سے یا ترکمانستان سے آسکتی ہے مگر دونوں پائپ لائنوں کو بھارت تک پہنچنے کے لئے پاکستان سے گزرنا ہوگا۔ اسی طرح اگر بھارت کو اپنی مصنوعات کو زمینی راستے سے ایران، افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں تک پہنچانا ہے تو بھی راستہ پاکستان سے ہوکر گزرتا ہے۔دنیا میں گزشتہ 30 سالوں میں ہونے والی ترقی نے ثابت کیا ہے کہ ملک نہیں بلکہ خطے ترقی کرتے ہیں مگر ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق جنوبی ایشیائی خطہ دنیا میں سب سے الگ تھلگ ہے۔

گوکہ پاکستان کے لئے خطے میں دیگر ممالک کے ساتھ دوطرفہ تعاون کی بہت اہمیت ہے، مگر ہمارے ایک جانب بھارت ہے جس سے پاکستان کے تعلقات 1947 سے ہی خراب ہیں تو دوسری طرف افغانستان ہے جہاں گزشتہ 40 سال سے بدامنی تھی یا ہے اور وہاں پر قائم ہونے والی حکومت کو ابھی تک دنیا نے قبول نہیں کیا ہے۔ پھر تیسری طرف سرحد ایران سے ملتی ہے جس پر عالمی پابندیاں ہیں اور پاکستان ایران سے ایندھن تک نہیں خرید سکتا ہے۔افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان کی حکومت کے قیام سے مجموعی طور پر امن کی فضا قائم ہوئی ہے۔ اس وجہ سے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں وزیرِاعظم شہباز شریف نے خطاب کرتے ہوئے جہاں پاکستان کی مشکلات کا ذکر کیا وہیں رکن ملکوں کی توجہ افغانستان کی جانب دلاتے ہوئے کہا کہ خطے کے امن اور ترقی کے لئے افغانستان میں امن ضروری ہے اور اس وقت افغانستان کو نظرانداز کرنا بہت بڑی غلطی ہوگی۔پاکستان افغانستان کا پڑوسی ملک ہے اور افغانستان میں امن دراصل پاکستان میں امن کی ضمانت ہے، افغانستان میں امن ہوگا تو خطے کے دیگر ممالک بھی امن سے رہ سکیں گے اور ترقی کریں گے۔ 

اگر ہم خطے میں پائیدار امن چاہتے ہیں تو ہمیں افغانستان کے عوام کی بہتری کے لئے وہاں تعلیم، صحت، کاروبار، زراعت سمیت تمام شعبوں میں ہونے والے ہر مثبت قدم کی حمایت کرنی چاہئے۔شہباز شریف نے کہا کہ اگر اس وقت ہم نے افغانستان کو نظرانداز کیا تو یہ بڑی غلطی ہوگی، ہماری رائے تو یہ ہے کہ افغانستان میں سیکورٹی اور انسدادِ دہشتگردی کے حوالے سے افغانستان کو مضبوط بنانے کے لیے ان کی مدد کی جائے۔ان کا کہنا تھا کہ انسانی امداد کے علاوہ عالمی برادری کو پائیدار افغان معیشت کے لیے بھی مدد کرنے کی ضرورت ہے، اس سلسلے میں افغانستان کے منجمد اثاثوں کی بحالی بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔انہوں نے افغان حکومت پر بھی زور دیا کہ وہ تمام شعبہ ہائے زندگی کے افراد کو حکومت کا حصہ بناتے ہوئے تمام شہریوں اور معاشرے کے تمام طبقات بالخصوص خواتین کے انسانی حقوق کا احترام کریں۔جب سے افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا ہوا ہے، علاقائی تعاون کو فروغ دینے اور خطے میں تجارت کو بڑھانے کے لئے ماہرین کی جانب سے توجہ مبذول کروائی جاتی رہی ہے۔

 اس حوالے سے امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر علی جہانگیر صدیقی نے ایک مقالہ تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے پاکستان سے براستہ افغانستان علاقائی تعاون کے ایک نئے باب کو کھولنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر علی جہانگیر صدیقی کا نیکسٹ گریٹ انفراسٹرکچر کنیکٹر کے موضوع پر اپنے مقالے میں کہنا تھا کہ پاکستان جنوبی اور وسط ایشیائی ملکوں کے درمیان ہے۔ انہوں نے پالیسی سازوں کی توجہ اس جانب دلائی کہ وسط ایشیائی ملکوں تک رسائی چین کے ذریعے کی جاسکتی ہے اور سی پیک انفراسٹرکچر بھی اس کام کے لئے استعمال ہوسکتا ہے۔وسط ایشیائی خطے میں انٹرنیٹ کا استعمال مستقبل میں بڑھ رہا ہے مگر ان ممالک میں فائبر آپٹک روس، چین اور ایران سے منسلک ہیں اور انہیں اگر پاکستان کی جانب سے فائبر آپٹک کنیکشن فراہم کیا جائے تو یہ ایک بہترین رابطہ ہوگا۔افغانستان میں فائبر آپٹک لنک قائم ہورہا ہے اور اس سے منسلک ہونا آسان ہے۔

پاکستان کو اس وقت غذائی تحفظ کی ضرورت ہے اور اس کے لئے کیمیائی کھاد کی ضرورت ہے اور یہ کھاد قدرتی گیس سے بنتی ہے۔ اس کے لیے گیس وسط ایشیائی ملکوں سے حاصل کی جاسکتی ہے کیونکہ تیار کھاد کی درآمد زیادہ مہنگی پڑنے کے ساتھ ساتھ دستیابی کے مسائل بھی موجود ہوں گے۔اس مقالے پر ایک مجلس مذاکرہ کا اہتمام اسلام آباد میں کیا گیا تھا جس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم مصدق ملک کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں ایک خطے کے طور پر ترقی کرنی ہے تو توانائی کے انفراسٹرکچر کو بڑھانا ہوگا۔ اس میں گیس پائپ لائن اور بجلی کی فراہمی کا نیٹ ورک شامل ہے۔ چین کو توانائی کی ضرورت ہے اور87ہزار کلومیٹر طویل پائپ لائن جو ترکمانستان سے ہوکر بیجنگ پہنچے گی وہ ایک خواب ہے۔ وسط ایشیائی ملکوں میں ہائیڈرو انرجی اور سیال معدنی ایندھن کے وسائل موجود ہیں۔ ترکمانستان کے پاس دنیا میں گیس کے سب سے بڑے ذخائر ہیں تو پاکستان کے پاس اہلیت اور انفراسٹرکچر دستیاب ہے۔

 پاکستان اس گیس کو خود استعمال کرکے ترقی کرسکتا ہے اور اس گیس کو اپنی بندرگاہوں سے دنیا بھر کے لئے سپلائی چین کا مرکز بن سکتا ہے۔ مگر اس تمام تر تعاون کے درمیان افغانستان حائل ہے اور افغانستان میں امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے علاقائی تعاون اشتراک اور باہمی تجارت کے منصوبے مشکلات کا شکار ہیں۔ کیونکہ پاکستان سے گزر کر وسطی ایشیائی ملکوں تک رسائی کے لیے افغانستان سے گزرنا ہوگا اور اس کے لیے ایک بڑی رقم سیکورٹی پر خرچ کرنا ہوگی۔

ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت گیس پائپ لائن جس کو تاپی کہا جاتا ہے اس سے ملنے والی گیس پاکستان کو بہت سستی پڑے گی کیونکہ پاکستان اپنے ملک سے بھارت کو گیس فراہم کرکے ایک بھاری فیس وصول کرے گا اور اس سے گیس سستی ہوسکتی ہے، مگر اس راستے میں بھی افغانستان موجود ہے۔تمام تر مشکلات کے باوجود پاکستان کو کوشش کرنا ہوگی کہ افغانستان کے مسائل کو حل کرنا عالمی برادری کے ایجنڈے میں شامل ہو تاکہ افغانستان کی وجہ سے جو علاقائی ترقی کا عمل رکا ہوا ہے وہ دوبارہ بحال ہوسکے۔پاکستان کو اپنی معاشی ترقی کے لیے وسط ایشیائی ریاستوں سے منسلک ہونے کی ضرورت ہے۔ 
(بشکریہ  ڈان، تحریرراجہ کامران، ترجمہ: ابوالحسن امام)