ماحولیاتی ترجیحات



”ایشین واٹر ڈویلپمنٹ آؤٹ لک“ کے مطابق پاکستان کی زیادہ تر آبادی کیلئے یہ تعجب کی بات نہیں ہوگی کہ اِن کا ملک ایشیا میں پانی کی حفاظت کیلئے ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ میں سب سے کم درجہ رکھتا ہے مئی کی شدید گرمی کی لہر کے بعد چودہ مئی کو جیکب آباد شہر کا درجہ حرارت اکیاون ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا اور پاکستان کے کئی شہروں میں موسم گرما کی شدت دیکھی گئی جسکے بعد پاکستانی اب اپنی زندگی کے انتہائی شدید سیلاب کا سامنا کر رہے ہیں‘ شدید گرمی اور شدید مون سون بارشیں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے انتہائی اہم واقعات ہیں سال کے شروع میں گرم ہوا زیادہ نمی رکھتی ہے اور برفانی تودے (گلیشیئرز) پگھلتے ہیں جن سے متعلق سیلاب کی پیش گوئی کی گئی لیکن سرکاری ادارے اِس قدر بڑے سیلاب سے نمٹنے کیلئے تیار نہیں تھے اور ہمیشہ کی طرح اِس مرتبہ بھی سیلاب نے سب زیادہ غریبوں کو نقصان پہنچایا ہے سیلاب سے بلوچستان اور سندھ کے صوبے نسبتاً زیادہ متاثر دکھائی دیتے ہیں جبکہ غریب اور دیہی آبادی نہ صرف اپنے گھر بلکہ اپنی آمدنی اور ذریعہ معاش سے بھی محروم ہوگئی رواں برس اگر مئی میں فصلیں اور مال مویشی گرمی میں جل رہے تھے تو اگست میں سیلاب آ گیاسیلاب سے تین کروڑ تیس لاکھ سے زیادہ لوگوں کا ذریعہ معاش تباہ ہوا ہے اور چودہ سو سے زیادہ لوگ لقمہ اجل بنے ہیں آب و ہوا کی اِن دونوں انتہاؤں نے پہلے سے ہی موجود پانی اور خوراک کے عدم تحفظ کی صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے ملک میں سات کروڑ بیس لاکھ افراد یا تو شدید یا کم شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں اور ہر پانچ میں سے چار پاکستانیوں کو ملنے والی خوراک اُنکی جسمانی ضروریات کیلئے کافی نہیں ہے جب توانائی حسب ضرورت دستیاب نہ ہو تو اِسکی وجہ سے بھی پانی اور خوراک کا عدم تحفظ بڑھ جاتا ہے فی الوقت دیہی آبادی کا دو تہائی سے بھی کم قومی بجلی گرڈ سے منسلک ہے جہاں دن میں اٹھارہ گھنٹے بجلی کی بندش معمول ہے اور جبکہ پاکستان کے ویژن2025ء میں واضح طور پر پانی‘خوراک اور توانائی کے تحفظ سے متعلق ترجیحات کا تعین نہیں کیا جاتا اُس وقت تک ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کی کوشش اور قدرتی وسائل کی حفاظت مشکل رہے گی موسمیاتی تبدیلی سے منسلک اور مستقبل کے انتہائی خطرات سے نمٹنے کیلئے آبی توانائی‘ خوراک اور ماحول کے تحفظ کے منصوبوں کی فوری ضرورت ہے ان میں کمزور طبقات کو بحالی کیلئے فوری ریلیف فراہم کرنا‘ امدادی کوششوں میں تعلیمی اداروں کی بحالی یا عبوری طور پر خیمہ سکول قائم کرنے اور صحت کی سہولیات‘خواتین کیلئے روزگار کے مواقع اور سماجی امداد پر توجہ مرکوز ہونی چاہئے نیز کسانوں کو حکومت کی طرف سے رعایتی قرضوں پر بیج‘ کھاد اور دیگر اشیا تک بروقت رسائی کی بھی ضرورت ہے تاکہ سیلاب کا پانی کم ہوتے ہی خوراک کی پیداوار دوبارہ شروع کی جا سکے‘ مسلسل ریلیف کے ذریعے موجودہ بحران کے طویل مدتی منفی اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے سال دوہزاردس کے سیلاب کے بعد غیر مساوی امدادی کوششوں کا ایک مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ جن علاقوں میں نقصانات کا معاوضہ (وطن کارڈ) پروگرام سیلاب سے ادا کیاگیا وہ آفت کے نتیجے میں ذہنی تناؤ کا مقابلہ کرنے کے زیادہ قابل تھے موسمیاتی مربوط پیشن گوئی کا نظام اور آفات سے بروقت آگاہی ضوری ہے اِس سلسلے میں وفاقی فلڈ کمیشن کا مرکزی کردار ہونا چاہئے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) خوراک‘ پانی اور توانائی کی فراہمی کیلئے ذمہ دار ہیں اور اِن اداروں کو مستحکم بنانے کیلئے نیشنل ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ فنڈ بنانا چاہئے‘ پاکستان کو سیٹلائٹ امیجری‘ ڈرونز اور مشین لرننگ میں تازہ ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے شدید موسمی واقعات کے بعد تیزی سے نقصان کا اندازہ لگانے کی اپنی صلاحیت کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے‘پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہے اِس ضرورت اور اِس سے متعلق اپنے اختیارات کو بہتر طور پر سمجھنا اور تیاری کرنا ضروری ہے پاکستان کو پانی‘ توانائی اور خوراک کی حفاظت اور ماحولیاتی پائیداری میں معاونت فراہم کرنیوالے آبی ذخیرے بشمول ایکویفر سسٹم‘ مٹی‘ درخت‘ ویٹ لینڈز اور گرے انفراسٹرکچر پر غور کرنے کی ضرورت ہے برآمدات کیلئے کپاس‘ چاول اور گنے کی اجناس اور اِنکی پیداوار میں اضافے سے متعلق حکمت عملی کا جائزہ لیا جانا چاہئے اگرچہ مذکوررہ تینوں فصلیں اہم زرمبادلہ کمانے والی ہیں لیکن زرعی پیداوار اور اجناس کا انتخاب کرتے ہوئے ایسی فصلوں میں سرمایہ کاری کرنی چاہئے جنہیں نسبتاً کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو اِس سے غریبوں کیلئے حالات بد سے بدتر ہوں گے اور اِنکے منفی اثرات قومی معیشت پر بھی مرتب ہونگے تبدیلی کے منفی اثرات کم کرنے کے مواقع موجود ہیں‘ دیکھنا یہ ہے کہ اِن مواقعوں سے کس قدر فائدہ اُٹھایا جاتا ہے (بشکریہ: دی نیوز‘ تحریر: ڈاکٹر محسن حفیظ‘ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)