کسی بھی آفت یا امن و امان و دیگر وجوہات کی بنا پر پیدا ہونے والے حالات کے باعث اپنے آبائی علاقوں کو چھوڑ کر‘ قرب و جوار میں پناہ لینے والوں کو ”مقامی بے گھر افراد (انٹرنلی ڈسپلیسڈ پرسنز IDPs) کہا جاتا ہے۔ ایسے ”اندرونی طور پر بے گھر افراد کا تعلق صرف پاکستان ہی سے نہیں بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں ایسے افراد پائے جاتے ہیں اور انہیں انتہائی کمزور (بے وسیلہ و لاچار) لوگوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ داخلی نقل مکانی کرنے والے افراد یا افراد کے گروہ اپنی مرضی سے آبائی علاقوں سے بھاگنے پر مجبور ہوتے ہیں اور ان کی اِس نقل مکانی سے سماجی و ثقافتی اثرات بھی پیدا ہوتے ہیں تاہم پہلے سے غربت زدہ طبقات کی اِس نقل مکانی کے حوالے سے خاطرخواہ غوروخوض نہیں کیا جاتا اور نہ ہی نقل مکانی کرنے کی وجوہات ختم کی جاتی ہیں۔ اِسی طرح نقل مکانی کرنے والے جس تشدد سے بھاگتے ہیں انہیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور عزت نفس مجروح ہونے کی صورت زیادہ بلکہ اضافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک عمومی غلطی یہ کی جاتی ہے کہ ’آئی ڈی پیز‘ کو اکثر ”مہاجرین“ کہا جاتا ہے تاہم وہ پناہ گزینوں کی عمومی قانونی تعریف کے زمرے میں نہیں آتے۔ پاکستان کا متنوع جغرافیہ اور آب و ہوا ملک کو آب و ہوا سے پیدا ہونے والی آفات جیسا کہ سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کی ایک وسیع رینج سے دوچار کرتی ہے۔ اگرچہ پاکستان نے آب و ہوا کے بحران میں سب سے کم حصہ ڈالا ہے اور یہ دنیا کو گرم کرنے والی گیسوں کے ایک فیصد سے بھی کم کیلئے ذمہ دار ہے لیکن گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس کے مطابق پاکستان موسمیاتی بحران کے شکار ممالک میں آٹھویں نمبر پر سب سے زیادہ کمزور ملک ہے۔انٹرنل ڈسپلیسمنٹ مانیٹرنگ سینٹر کے مطابق سال 2008ء سے 2021ء تک پاکستان میں ایک کروڑ چھیاسٹھ لاکھ آئی ڈی پیز ہوئے اور 94 آفات وقوع پذیر ہوئی ہیں۔ اس عرصے کے دوران سیلاب کی وجہ سے سب سے زیادہ نقل مکانی کی گئی جو ایک کروڑ چوون لاکھ ہے۔ سیلاب کے بعد زلزلے سے گیارہ لاکھ افراد نے نقل مکانی کی۔ دیگر آب و ہوا سے پیدا ہونے والی آفات جنہوں نے پاکستان میں اندرونی نقل مکانی کو جنم دیا ان میں دائمی خشک سالی‘ انتہائی زیادہ درجہ حرارت اور بار بار آنے والے طوفان شامل ہیں۔ صرف سال 2021ء میں پاکستان میں 70ہزار اندرونی نقل مکانی ریکارڈ کی گئی ہے‘ یہ سب موسمیاتی آفات کی وجہ سے ہوئیں‘ سال دوہزاربائیس کی حالیہ مون سون بارشوں نے تباہ کن سیلابوں کو جنم دیا اور پاکستان بھر میں ایک اندازے کے مطابق تین کروڑ تیس لاکھ 33ملین افراد متاثر ہوئے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی سے چلنے والی تباہی نے چودہ سو سے زیادہ لوگوں کی جانیں لے لی ہیں اور لاکھوں بے گھر ہوئے ہیں‘ جن میں خواتین‘ بچے‘ بوڑھے اور معذور افراد شامل ہیں‘ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے انکشاف کیا ہے کہ سیلابی پانی سترہ لاکھ سے زیادہ گھروں کو بہہ چکا ہے‘ جس سے پاکستان کے اندر لاکھوں افراد بے گھر ہیں اور انہیں پناہ گاہ‘ خوراک‘ صحت کی دیکھ بھال اور دیگر بنیادی ضروریات چاہیئں۔پاکستان کے مخیر حضرات اِس مشکل کی گھڑی میں فراخدلانہ امداد کے ذریعے ایک نہایت ہی تاریخی و اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور اِنہیں ایسا کرنا بھی چاہئے‘ پاکستان میں گزشتہ برسوں میں ریکارڈ شدہ آئی ڈی پیز کی ایک بڑی تعداد اور ان کو درپیش خطرات کے باوجود‘ ملک میں کوئی قومی قوانین یا پالیسیاں نافذ نہیں ہیں جو خاص طور پر آئی ڈی پیز پر لاگو ہوں‘ لینڈ ایکوزیشن ایکٹ 1894ء ایسی واحد قانونی دستاویز ہے جو نقل مکانی سے متعلق ہے تاہم یہ صرف عوامی مقاصد اور کمپنیوں کیلئے زمین کے حصول پر لاگو ہوتا ہے‘ آئین کا آرٹیکل پچیس ایک کہتا ہے کہ تمام شہری قانون کے سامنے برابر ہیں اور قانون کے مساوی تحفظ کے حقدار ہیں۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ پاکستان نے جون دو ہزاردس میں شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے کی توثیق کی تھی۔ آئی سی سی پی آر کا آرٹیکل دو کی دوسری شق پاکستان کو پابند کرتا ہے کہ وہ ”اپنے آئینی عمل اور موجودہ میثاق کی دفعات کے مطابق‘ ایسے قوانین یا دیگر اقدامات کو اپنانے کے لئے ضروری اقدامات کرے جو تسلیم شدہ انسانی حقوق کو نافذ کرنے کیلئے ضروری ہوں۔ اسلئے پاکستان کو چاہئے کہ وہ قانون سازی کرے جو خاص طور پر آئی ڈی پیز کے حقوق کا تحفظ کرے‘پاکستان اندرونی نقل مکانی سے متعلق رہنما اصولوں سے تحریک لے سکتا ہے اور انہیں اپنی قومی قانون سازی میں شامل کر سکتا ہے۔ رہنما اصول 1998ء میں اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کے سامنے پیش کئے گئے تھے۔ وہ ان تمام ریاستوں میں بے گھر ہونے والے بے گھر افراد کے حقوق اور تحفظ کی ضمانت دیتے ہیں۔ اگرچہ رہنما اصول قانونی طور پر پابند نہیں لیکن انہوں نے اپنے آغاز سے ہی اہم اختیار حاصل کر لیا ہے‘ نیویارک میں ستمبر دوہزارپانچ میں عالمی سربراہی اجلاس میں‘ رہنما اصولوں کو آئی ڈی پیز کے تحفظ کیلئے ایک اہم بین الاقوامی فریم ورک کے طور پر تسلیم کیا گیا‘ حال ہی میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے سندھ اور بلوچستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور کہا کہ سندھ میں تباہی کی سطح کے حوالے سے انتہائی غیر منصفانہ صورتحال ہے‘ انہوں نے مزید کہا کہ ”عالمی برادری کیلئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سندھ سمیت پاکستان کو آج اس بحران پر قابو پانے کیلئے بڑے پیمانے پر مالی امداد کی ضرورت ہے“ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ یہ سخاوت کا نہیں بلکہ انصاف کا معاملہ ہے۔ بین الاقوامی برادری کو پاکستان کی مدد کرنی چاہئے کیونکہ وہ غیرمعمولی موسمیاتی سیلابوں کا جواب دیتا ہے‘بہت سے آئی ڈی پیز برسوں تک بے گھر رہتے ہیں‘ عالمی برادری کو پاکستان کی مدد کا عہد کرنا چاہئے جب تک کہ تمام بے گھر افراد اپنے گھروں اور دیہات کی تعمیر نو کے بعد وطن واپس نہیں آتے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ردا طاہر۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام