رواں موسم گرما میں پاکستان بھر میں تباہ کن سیلابوں کی وجہ سے ہونے والی تباہی اور جانی نقصانات نے ملکی معیشت کو جھکڑ رکھا ہے۔ حکومت کی جانب سے قلیل‘ درمیانی اور طویل مدتی کے لئے پیش کئے گئے ابتدائی تخمینہ جات سے زیادہ بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے ہیں اور خدمات کی فراہمی کا بنیادی ڈھانچہ اور روزمرہ زندگی کے معمولات متاثر ہیں بالخصوص دیہی علاقوں کا رہن سہن بحال ہونے میں سال نہیں بلکہ کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں۔ پاکستان کی مرکزی اور صوبائی حکومتیں ایک دوسرے کے مخالف سیاسی دھڑوں کی قیادت میں کام کر رہی ہیں اور اس صورتحال میں حکومتی وسائل الگ الگ طریقوں اور الگ الگ سیاسی اہداف کو مدنظر رکھتے ہوئے خرچ کئے جا رہے ہیں جو کسی ڈراؤنے خواب جیسی حقیقت ہے جبکہ سیلاب جیسی آفت اِس بات کی متقاضی ہے کہ پاکستان ایک متفقہ لائحہ عمل تشکیل دے اور اگر ایسا کیا جاتا ہے تو بیرون ملک سے بھی ملنے والی امداد میں اضافہ ہوگا کیونکہ جب دنیا یہ دیکھتی ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے مشت و گریباں اور اِس بے مقصد و لاحاصل لڑائی میں قومی وسائل ضائع ہو رہے ہیں تو وہ بھی مدد سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔
لمحہ فکریہ ہے کہ اگر پاکستان کو سیلاب جیسی آفت بھی متحد نہیں کر سکی تو پھر کونسی ایسی بڑی آفت آئے گی جو پاکستان کو سیاسی اختلافات سے بالاتر کرتے ہوئے ایک متحدہ قوم بنا سکے؟عدم اتفاق ایک خوفناک حقیقت ہے جو یکے بعد دیگرے آنے والی قدرتی آفات میں دیکھا گیا ہے اور اِس کی وجہ سے آفات کے منفی اثرات کئی گنا بڑھ کر بحرانوں کی شکل اختیار کر گئے ہیں! سوات میں ایک دریا کے کنارے گرنے والے ہوٹل کی خوفناک تصاویر نے مبینہ طور پر اس سے ایک دہائی قبل اسی طرح کے ایک حادثے کی یاد دلائی جس کے بعد تعمیر نو کا وعدہ کیا گیا۔ پارلیمانی انتخابات کا اگلا دور اب سے کم و بیش ایک سال بعد ہونے والا ہے‘ یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ پاکستان کے عوام کے سامنے مشترکہ مفادات کیا ہوں گے اور وہ کن ترجیحات کے بنیاد پر اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔
اگر بغور دیکھا جائے تو پاکستان کے قیام سے آج تک کی تاریخ مختلف قسم کی آفات کا سامنا کرتے ہوئے گزری ہے اور اِس تاریخ میں کئی بڑے انسانی المیوں کا ذکر ملتا ہے۔ سال دوہزارپانچ میں زلزلے آیا جس سے پورے شمالی علاقوں میں کم از کم ستر ہزار انسانوں کی اموات ہوئیں۔ یہ سبھی وہ لوگ تھے جو پہاڑوں اور ان کی وادیوں میں انتہائی کم وسائل کے ساتھ زندگی بسر کر رہے تھے کہ ان کی ہستیوں اور بستیوں کا نام و نشان تک نہیں رہا لیکن تازہ ترین سانحہ یعنی سیلاب دوہزار پانچ کے زلزلے جیسے سانحے کے درمیان بہت بڑا اور کلیدی فرق ہے جیسا کہ وزیر موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے کئی دن پہلے توجہ دلائی تھی اور مقامی حکام اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بلاتعطل بڑے ریلیف اور ریسکیو آپریشنز سرانجام دیئے جائیں لیکن بحالی و امداد کی یہ کاروائیاں مربوط و کافی نہیں ہیں۔
سیلابی پانی اِس قدر وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں ہیلی کاپٹر تک نہیں چلائے جا سکتے کیونکہ ہیلی کاپٹر کو اترنے اور اڑان بھرنے کیلئے خشکی کا کچھ نہ کچھ حصہ درکار ہوتا ہیحالیہ سیلاب پر بین الاقوامی ردعمل انتہائی سست ہے۔سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے اپنے اختلافات وقتی طور پر بالائے طاق رکھ دیں تو اِس سے کروڑوں سیلاب متاثرین کی امداد اور بحالی کی سرگرمیوں کو زیادہ تیزی سے مکمل کیا جا سکے گا۔ آج پاکستان کا بڑا حصہ سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے لیکن اگر مستقبل میں سیلاب جیسے چیلنجوں سے بچنا ہے اور خاص طور پر سال 2025ء میں جس خشک سالی کی پیشنگوئی کی جا رہی ہے اس سے نمٹنے کیلئے ضروری ہے کہ ابھی سے کام کیا جائے۔ اگر واقعی پاکستان مزید ڈیم بنا لیتا ہے تو یہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات سے بچ سکتا ہے۔ اس تباہی سے نکلتے ہوئے پاکستان کے رہنماؤں کو اتفاق رائے پیدا کرنے اور نئے بڑے ڈیموں کے منصوبوں پر کام شروع کرنا چاہئے‘ مستقبل کیلئے پانی کا ذخیرہ نہ صرف پاکستان کے غذائی قلت کا شکار زرعی شعبے کی مدد کرے گا بلکہ ملک کو مزید انسانی اور مالی نقصانات سے بھی بچا سکتا ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: فرحان بخاری۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)