روشنیوں کا شہر ’کراچی‘ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا شہر لیکن شہری سہولیات کے لحاظ سے کم ترین درجے پر فائز ہے کسی میٹروپولٹین شہر کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہوتا ہے کہ وہ صاف ستھرا ہوگا اُس کے ہاں فٹ پاتھ‘ صاف ستھری کشادہ شاہراہیں ہوں گی شہری سہولیات کی فراہمی منصوبہ بندی کے تحت ہو گی اور رہائش و کاروبار سے جڑی سہولیات کی فراہمی مثالی ہوگی شہر میں یوٹیلٹی انفراسٹرکچر کی مؤثر تنصیب بھی ایک واجبی ضرورت ہے لیکن کراچی کا نقشہ بالکل اُلٹ ہے اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ کراچی اب رہنے کے لئے ایک آرام دہ اور محفوظ شہر نہیں رہا احتیاطی تدابیر پر فیصلہ سازوں کی توجہ نہ ہونے کی وجہ سے ہنگامی بنیادوں پر حسب ضرورت شہر کے فیصلے کئے جاتے ہیں جبکہ ضرورت طویل مدتی حکمت عملی کی ہے۔
گزشتہ چند دہائیوں کے دوران دیکھا گیا ہے کہ کراچی میں غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات کی بھرمار ہے اور شہری عوامی تفریحی مقامات سے محروم ہو گئے ہیں اس کے ساتھ ساتھ شہر کی آبادی تیزی سے پھیل رہی ہے جس پر نگاہ نہیں رکھی جا رہی اور ایسی بستیاں آباد ہو رہی ہیں جہاں بنیادی سہولیات کا نام و نشان تک نہیں۔ ایسی بستیاں جب آباد ہونے کی اجازت دی جاتی ہے تو اِن سے کوڑا کرکٹ پیدا ہوتا ہے۔ نکاسیئ آب کے مسائل ظاہر ہوتے ہیں اور پینے کے پانی کی قلت کی وجہ سے نئی بستیوں کے مکین آلودہ پانی پینے پر مجبور ہوتے ہیں جبکہ پانی خرید کر حاصل کیا جاتا ہے۔ کراچی کے کئی علاقے ایسے ہیں جن میں اسٹریٹ لائٹ کا نظام ناکارہ کھمبوں اور یوٹیلٹی پاور انفراسٹرکچر میں خرابیوں کا مجموعہ ہے اور بجلی کے کھمبوں کو کیبل ٹیلی ویژن نیٹ ورک یا گھر گھر انٹرنیٹ پہنچانے کے لئے تاروں کے جال سے ڈھک دیا گیا ہے۔ بارش کی صورت میں کراچی شہر اور اِس کے مضافات ایک بڑے تالاب کا منظر پیش کرتے ہیں۔ شہر کی سڑکیں گڑھوں سے بھر جاتی ہیں‘ جو طویل عرصے تک بارش کا گندا پانی کھڑا رہنے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اور اِس کے باعث شہر کی مرکزی شاہراؤں سے استفادہ مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے۔
یہ غیر محفوظ صورتحال بچوں کے لئے بالخصوص جان لیوا ثابت ہوتی ہے لیکن بار بار کے حادثات کے باوجود بھی اِس جانب توجہ نہیں دی جاتی! کراچی کی کئی آبادیاں ایسی ہیں جو بجلی کے کنکشن تاروں پر کنڈے ڈال کر حاصل کرتی ہیں اور ایسے کنڈے بارش کے موسم میں انتہائی خطرناک ہوتے ہیں جن سے رونما ہونے والے حادثات کی ایک طویل فہرست ہے۔کراچی کا حیرت انگیز نوآبادیاتی فن تعمیر اب بڑی حد تک نظروں سے اوجھل ہو چکا ہے بڑے بڑے اشتہاری بورڈوں نے قدیمی عمارتوں کو ڈھانپ دیا ہے جو کبھی کراچی کا حسن اور یہاں کا فن تعمیر ہوا کرتی تھیں کراچی شہر کا قدیمی فن تعمیر اور ورثہ بل بورڈز‘ کیبلز اور دکانوں (تجاوزات) کی وجہ سے محفوظ نہیں‘ یہی تجاوزات ٹریفک کے بہاؤ اور شہری خدمات (یوٹیلٹی سروسز) کی فراہمی کی راہ میں بھی حائل ہوتی ہیں جب چھوٹے قطعات اراضی پر کثیر المنزلہ عمارتیں تعمیر کی جاتی ہیں تو اِس سے ’سیوریج‘ کا نظام دم توڑ دیتا ہے۔
عمودی طور پر توسیع تعمیرات کو خطرناک طور پر بجلی کی تاروں (لائنوں) کے قریب لے جاتی ہے جو اپنی جگہ خطرہ ہے بدقسمتی سے‘ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کراچی کے مکین اور حکام خوشی سے ایسے ممکنہ خطرات کو نظر انداز کر رہے ہیں‘ جو انتہائی تشویشناک طرزعمل ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ترقیاتی امور کی انجام دہی میں ڈویلپرز اور بلڈرز تعمیرات کے قواعد کا پاس رکھیں اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے اہلکار شہر میں جاری ترقیاتی کاموں پر نظر رکھیں تاکہ شہری ترقی کو انسانی ترقی کے مربوط پائیدار اور یقینی بنایا جا سکے۔ توجہ طلب ہے کہ شہری ترقی اگر لوگوں کے لئے جان و مال کا خطرہ بن رہی ہے تو اِس سے فائدے کی نسبت نقصان زیادہ ہو گا کراچی سے تجاوزات ختم کرنا ایک بڑا چیلنج سمجھا جاتا ہے کیونکہ تجاوزات ختم کرنے والے اداروں کے اہلکار مبینہ طور پر قانون شکنوں سے ملے ہوئے ہیں کراچی میں بجلی کے کھمبوں پر بھی تجاوزات نظر آتے ہیں جو انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچاتے ہیں اور بجلی کی فراہمی کے نظام کی سالمیت خطرے میں ڈالتے ہیں سب سے اہم بات یہ ہے کہ برقی حفاظتی میکنزم کو نظرانداز کیا جاتا ہے جس سے عمومی حفاظت کے لئے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں بہت سے ایسے بدقسمت واقعات رونما ہوئے ہیں جن کی اہم وجہ انٹرنیٹ اور ٹی وی کیبلز تھیں کیونکہ اِن تاروں کو بچھانے کے لئے حفاظتی پروٹوکولز کی خلاف ورزی کی جاتی ہے شہری تجاوزات کا تعلق کسی علاقے میں جرائم کے تصور سے بھی ہے اور جائیداد کی قیمت پر بھی اِس کا اثر پڑتا ہے۔ کوئی بھی ایسے علاقے میں گھر یا دکان نہیں خریدنا چاہے گا جہاں ہر کونے میں کچرا جمع ہو‘ غیر قانونی تعمیرات کی وجہ سے سڑکیں تنگ ہو رہی ہیں۔ گٹر اوور فلو ہیں کیونکہ زیادہ آبادی نکاسی کی صلاحیت کم کر دیتی ہے۔ کراچی مسائل کی وجہ سے چھلنی ہے۔ یہاں صفائی ستھرائی نہ ہونے کی وجہ سے بیماریاں عام ہیں۔
شہری ہونے کے ناطے‘ کراچی کے ہر رہنے والے کا فرض ہے کہ وہ اپنے گردوپیش کو تبدیل کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ کردار ادا کرے اور کوشش کرے۔ عوام حکام اور سٹی اسٹیک ہولڈرز سے مسائل کے حل میں دلچسپی لینے اور شہری ترقی یقینی بنانے کی توقع تو رکھتے ہیں لیکن ضروری یہ ہے کہ لوگ اپنے رویئے تبدیل کریں اور بالواسطہ طور پر اس مسئلے کا حل تلاش کریں تاکہ روشنیوں کے اِس شہر کی خوشحالی اور شان بحال کی جا سکے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: سارہ دانیال۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)