یاد آوری: رحیم اللہ یوسفزئی 


صحافت کو اخلاقی اقدار اُور غیرجانبداری سے نئی بلندیوں سے روشناس کرنے والے ’رحیم اللہ یوسفزئی‘ کو ہم سے بچھڑے ایک سال کا عرصہ بیت چکا ہے (اناللہ و انا علیہ راجعون)۔ آپ نے صحافت کا آغاز کراچی سے کیا اُور کراچی میں مختصر مدت قیام کے بعد اسلام آباد چلے گئے۔ انہیں علاقائی امور اور ملک کی سیاسی پیشرفت میں دلچسپی تھی‘ اُور یہ دلچسپی اُن کی باقی ماندہ صحافتی زندگی میں اُن کا محبوب مشغلہ بھی رہا۔ 1980ء کی دہائی کے وسط میں معروف انگریزی روزنامے کے بیورو چیف کے طور پر آپ پشاور منتقل ہوئے اُور بہت جلد ایک محنتی و ایماندار صحافی کے طور پر اپنی ساکھ قائم کی۔ آپ کی پیشہ ورانہ زندگی کا نچوڑ یہ تھا کہ آپ نے ہر قسم کے حالات میں صحافت کے اصولوں کی سختی سے پابندی کی اُور کبھی بھی صحافتی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کی صحافتی خدمات سے نہ صرف صحافت کے وقار میں اضافہ ہوا بلکہ پاکستان اور خطے کے سیاسی منظر نامے میں کئی اہم تبدیلیاں بھی ہوئیں اُور یہ سب کچھ ایک ایسے نازک وقت میں ہوا جب پاکستان نے اپنے دروازے افغانوں کے کھول دیئے اُور لاکھوں کی تعداد میں آنے والے افغان مہاجرین نے ملک کی داخلی اور خارجہ پالیسیوں اُور سماجیات کو متاثر کیا چونکہ مہاجرین کو زیادہ تر خیبر پختونخوا میں پناہ دی گئی تھی اُس وقت رحیم اللہ یوسفزئی نے پاکستان کی آنکھ اُور زبان بن کر مہاجرین کی خیمہ بستیوں کا دورہ کیا اُور مہاجرین کے مسائل و حالات اُور مہاجرین و انصار یعنی خیبرپختونخوا کے مقامی افراد کے درمیان تعلقات و امور پر عوامی نکتہئ نظر پیش کیا جس سے فیصلہ سازوں سمیت پاکستان اُور دیگر ممالک کو مہاجرین اُور افغان مسئلے کو سمجھنے میں بڑی مدد ملی۔ بندہ پرور‘ رحیم اللہ یوسفزئی کی پراثر تحریروں میں غریب پناہ گزینوں کے مصائب اُور اُن کی درد بھری کہانیاں بیان کی گئیں۔  مہاجرین کی بڑی تعداد کی آمد نے پختون معاشرے اور معیشت پر کئی طرح سے اثر ڈالا۔ رحیم اللہ یوسفزئی نے پناہ گزینوں کے مسائل کی سماجی اور بشری جہتوں اور میزبان معاشرے پر اس کے اثرات کا باریک بینی سے مطالعہ کیا اُور اپنے مطالعے کے بعد غیرجانبداری سے تحقیق کو تحریری شکل میں تاریخ کے حوالے کر دیا۔ افغان مہاجرین کے بارے میں اُن کی رپورٹنگ کسی تعصب کا مظہر نہیں تھی بلکہ اِس سے ”انسان دوستی کی عکاسی“ ہوتی تھی۔ اظہار پر اپنے منفرد و مضبوط گرفت کے ساتھ رحیم اللہ یوسفزئی کی افغان تنازعات پر رپورٹنگ کو اندرون و بیرون ملک وسیع قارئین نے پڑھا‘ سنا اُور دیکھا اُور طویل عرصے سے جاری افغان تنازعہ کا اِس سے بہترین‘ جامع اور مطلوب ’حقائق نامہ‘ کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا تھا۔گزشتہ چار دہائیوں کے دوران‘ رحیم اللہ یوسفزئی نے اپنے قارئین کو اپنی تحریروں کے سحر سے گرفت میں لئے رکھا۔ اُنہیں دستاویزی انداز میں مفصل تجزیاتی رپورٹیں پیش
 کرنے پر ملکہ حاصل تھا۔ الیکٹرانک میڈیا پر انہوں نے غیر جانبدارانہ تبصروں سے اپنے سامعین کو اپنے سحر میں جکڑا ہوا تھا۔ نرم مزاج‘ نرم گفتار اور شائستہ طبیعت کے مالک‘ رحیم اللہ یوسف زئی کو اپنی پیشہ وارانہ مہارت کی وجہ سے اندرون و بیرون ملک شہرت ملی لیکن وہ ایک سیدھے سادے اُور اصول پسند انسان تھے جنہوں نے کبھی بھی اپنی صحافتی مقبولیت سے ناجائز فائدہ نہیں اُٹھایا اُور ہمیشہ صحافتی اقدار کو ذاتی فوائد پر ترجیح دی اُور اپنا نام اور اثر و رسوخ استعمال نہیں کیا۔ ان کی معصوم پیشہ ورانہ مہارت اور حالات حاضرہ سے متعلق رپورٹنگ نے انہیں عالمی سطح پر شناخت اُور عزت بخشی اُور مغربی پریس اور الیکٹرانک میڈیا خاص طور پر ان کی رائے اُور تبصروں کی کمی محسوس کر رہا ہے۔رحیم اللہ یوسفزئی نے افغانستان کے تنازع کو شروع دن سے توجہ دی اُور اِس موضوع کو دیگر موضوعات کی نسبت زیادہ توجہ دی۔ آپ بیک وقت پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ملک و غیرملکی اداروں کے لئے ’بلاتھکان‘ کام کرتے تھے اُور یہی وجہ تھی کہ ملکی اور غیر ملکی اخبارات میں آپ کی تحریریں باقاعدگی سے شائع ہوتیں اُور آپ ریڈیو اُور ٹیلی ویژن پر بھی آن ائر رہتے۔ ایک صحافی ساتھی نے بجا طور پر رحیم اللہ یوسفزئی کو ”افغانستان کا رابرٹ فسک“ کہا۔ ذہن نشین رہے کہ ایوارڈیافتہ معروف برطانوی صحافی رابرٹ فکس (وفات 30 اکتوبر 2020ء) عالمی تنازعات (جنگوں) کے حوالے سے رپورٹنگ کے ماہر تھے۔رحیم اللہ یوسفزئی نے قومی مسائل اور اپنے آبائی صوبہ ’خیبر پختونخوا‘ میں سیاسی حالات اور
 تبدیلیوں پر بھی نگاہ رکھی اُور افغان امور کے علاؤہ اپنا باقی ماندہ وقت اُور ذہانت و دلچسپی خیبرپختونخوا کی شناخت اُجاگر کرنے‘ پسماندہ طبقات کو درپیش حالات کے بیان‘ سیاسی تجزئیات اُور عمومی و خصوصی عوامی مسائل کے بارے میں لکھنے کی نذر کیا اُور اِن سبھی صحافتی کوششوں میں وہ اوّل تا آخر غیرجانبدار رہنے کی کوشش میں بھی کامیاب رہے۔ انہوں نے اس بات پر گہری توجہ دی کہ قومی امور میں خیبرپختونخوا کے حقوق کا دفاع قلم سے کس طرح اُور مؤثر انداز سے کیا جائے۔ 1980ء کی دہائی میں جب ’کالاباغ ڈیم‘ کی تعمیر پر بحث ہو رہی تھی تو اُس وقت رحیم اللہ یوسفزئی نے سیاست دانوں سے ملاقاتیں اور تقاریر کی باریک بینی سے رپورٹنگ کی۔ ہائیڈرو پاور پر ماہرین کی آرأ ریکارڈ کیں اور حکام کی سرکاری بریفنگ کا بھی احاطہ کیا۔ انہوں نے ایسی قومی پالیسیوں پر بھی توجہ دی جو مستقبل کے صوبائی حقوق پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ انہوں نے آئینی ترامیم اور اسلام آباد میں تعلیم و صحت کے لئے وسائل کی تقسیم اور انضمام شدہ قبائلی اضلاع میں ترقیاتی فنڈز کی ضروریات کے حوالے سے زیربحث معاملات کی رپورٹنگ کرنے میں خاصی لگن‘ عرق ریزی (محنت) سے کام کیا۔ اتفاق سے راقم الحروف کی آخری رپورٹ وفاقی حکومت کی پاور جنریشن پالیسی سے متعلق تھی جس میں تبدیلی کو اُنہوں نے موضوع بنایا تھا اُور اِس سے خیبرپختونخوا کو حاصل ہونے والی آمدن کے ممکنہ ذرائع سے محروم ہونے سے متعلق پہلوؤں کا ذکر کیا گیا تھا۔ رپورٹرز کی ایک چھوٹی ٹیم کے ساتھ‘ رحیم اللہ یوسفزئی نے نہ صرف سیاسی معاملات پر بلکہ ثقافتی اور سماجی مسائل پر بھی جامع کوریج فراہم کی۔ ایک وقت آیا کہ اُن کی خرابیئ صحت نے اُنہیں کام کاج (محنت) سے روکا لیکن وہ ایک مطمئن شخص تھے جنہوں نے نہایت ہی ثابت قدمی سے اپنے پیشہ ورانہ فرائض اور سماجی ذمہ داریوں کو اسی لگن کے ساتھ ادا کیا جس سے اُنہیں ادا کیا جانا چاہئے تھا۔ وہ تمام زندگی اخبارات کے لئے لکھنے‘ ٹیلی ویژن چینلوں پر نمودار ہونے اور ادارتی تجزئیاتی مضامین (کالمز) لکھنے کی صورت انتھک محنت کے عادی تھے۔ ممتاز شخصیات کے بارے میں ان کی تحریریں بار بار پڑھنے لائق ہیں جس میں کسی ایک شخصیت کے کئی پہلوؤں کا احاطہ کرنے پر اُنہیں مہارت حاصل تھی۔ راقم الحروف کو یاد ہے کہ ایک سابق سینئر بیوروکریٹ (اعلیٰ عہدوں پر فائز رہنے والے سرکاری ملازم) نے ان سے یہ درخواست کی تھی کہ جب وہ انتقال کر جائیں تو ان کے بارے میں (انتقال نامہ) لکھیں اُور رحیم اللہ یوسفزئی چونکہ وعدے کے پکے تھے اِس لئے کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے اُس بیوروکریٹ کی وفات پر اُنہوں نے تحریر کے ذریعے اُن کی گرانقدر خدمات کو اُجاگر کرتے ہوئے اُن کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو خوبصورتی سے بیان کیا تھا۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: جمیل احمد۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)