غربت کا جال 

”غربت کے جال“ کی اصطلاح معاشیات میں اُس چکر کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے کم آمدنی رکھنے والے طبقات باوجود خواہش و کوشش بھی غربت کی دلدل سے نکل نہیں سکتے۔ غربت کے جال میں پھنسے ہوئے لوگ اپنے حالات ِزندگی بہتر بنانے کے لئے اتنا سرمایہ کما یا بچا نہیں سکتے‘ جس کی اُنہیں ضرورت ہوتی ہے اور نتیجہ یہ رہتا ہے کہ وہ غربت کے بھنور یا دلدل میں گرتے چلے جاتے ہیں۔سیاسی عدم استحکام‘ مالیاتی بحران‘ قدرتی آفات اور تنازعات جیسے بہت سے عوامل اس تنزلی کی رفتار کو تیز کرتے ہیں اور غربت کے جال آنے والی نسلوں پر طویل مدتی منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر‘ جب کوئی شخص معاشی کساد بازاری کی وجہ سے بے روزگار ہوجاتا ہے‘ تو اس کی پہلی ترجیح بارش کے دنوں میں رکھی ہوئی بچت سے اپنے خاندان کا پیٹ بھرنا ہوتا ہے۔ نتیجے کے طور پر‘ یہ شخص ناکافی وسائل کی وجہ سے اپنے بچوں کی تعلیم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اپنے بچوں کو تعلیم دے کر اس کے حالات زندگی کو بہتر بنانے کی واحد امید ختم ہو جاتی ہے۔ انسان مالی طور پر نیچے گر جاتا ہے اور مستقل طور پر غربت میں پھنس جاتا ہے۔

 ہر قدرتی آفت غربت کے جال میں داخل ہونے کے لئے نئے متاثرین پیدا کرتی ہے اور اس کے ساتھ پہلے سے پھنسے ہوئے غریبوں کے اس سے نکلنے کے امکانات بھی کم کر دیتی ہے۔ پاکستان میں موجودہ سیلاب نے ملک میں پہلے سے موجود مشکلات میں اضافہ کیا ہے‘ جس سے تین کروڑ تیس لاکھ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ پاکستانی حکومت اور اقوام متحدہ کے مطابق دس لاکھ سے زائد مکانات یا تو منہدم ہوئے ہیں یا اُنہیں شدید نقصان پہنچا، تراسی لاکھ ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئی ہیں اور 7لاکھ 35 ہزار مال مویشی ہلاک ہوئے ہیں۔ پاکستان پہلے ہی پٹرول اور بنیادی اشیائے خوردونوش کی بلند قیمتوں اور ڈالر کی انتہائی غیر مستحکم شرح مبادلہ کی صورت میں مالی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کا مجموعہ یہ ہے کہ ملک کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوبنے کے سبب لاکھوں لوگوں غربت کے جال میں پھنس گئے ہیں اور اَب اِس صورتحال سے نکلنے کی کوئی راہ دکھائی نہیں دے رہی۔

 حالیہ سیلاب سے کپاس‘ چاول‘ پیاز‘ سبزی‘ گنا اور گندم کی فصلیں بہہ گئی ہیں جو چھوٹے کسانوں کی کل جمع پونجی ہوتی ہیں اور یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے۔ غریب کسان جو اپنے خاندان کے پورے سال کے مالی اخراجات برداشت کرنے اور آئندہ سیزن کے لئے نئی فصل اُگانے کے لئے مذکورہ نقد (فوری فروخت ہونے والی) فصلوں میں سے کسی ایک کی کاشت پر انحصار کرتے تھے‘ اب ان کے پاس سرمایہ نہیں بچا ہے۔ یہ صورتحال ان لوگوں کو غربت کے جال میں مزید نیچے دھکیل چکی ہے۔ اس کے علاوہ سیلاب سے پیدا ہونے والے صحت کے مسائل نے غربت کے جال میں پھنسے ہوئے لوگوں کے لئے خطرہ بڑھا دیا ہے۔ سیلاب کے بعد ڈینگی‘ ملیریا اور ڈائریا جیسی پانی سے پیدا ہونے والی کئی بیماریاں پھیل گئیں۔ سرکاری اطلاعات کے مطابق سیلاب نے 900 کے قریب صحت کی سہولیات کو تباہ کیا ہے۔

 صحت کے ان مسائل نے غریبوں پر مزید مالی بوجھ ڈال دیا ہے‘ جس سے اُن کے لئے اپنے حالات ِزندگی بہتر بنانا ممکن نہیں رہا۔ غریب بچوں اور حاملہ خواتین کے لئے غذائیت سے بھرپور خوراک کی کمی بعد کے مراحل میں سٹنٹنگ اور سست علمی نشوونما کے مسائل کو جنم دے گی۔ اس سے بچوں کی عام طور پر بڑھنے‘ تعلیم حاصل کرنے‘ ان کے معیار زندگی کو بہتر بنانے اور غربت کے جال توڑنے کی صلاحیت کم ہو جائے گی۔تعلیم لوگوں کو غربت کے جال سے بچنے یا اس سے نکلنے میں مدد دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ موجودہ سیلاب نے لاکھوں لوگوں کو بے گھر کر دیا ہے اور تعلیمی اداروں کے انفراسٹرکچر کو منہدم کر دیا ہے۔ یہ صورتحال غریبوں کے لئے غربت کے جال میں جانے کے لئے ایک اور ناموافق حالت پیدا کرنے کا باعث ہے۔ آنے والی نسلوں کی تقدیر بدلنے کے لئے کمانے اور بچوں کو تعلیم دلانے کی جدوجہد پر سمجھوتہ کیا جائے گا‘ اس طرح اِن طبقات کے غربت سے نکلنے کے امکانات مزید کم ہو جائیں گے۔

 موجودہ حالات سے پیدا ہونے والے غربت کے جال کے خطرات کو کم کرنے کے لئے کوشش کی جا سکتی ہے۔ ان تجویز ہے کہ ایسی منصوبہ بندی کی جائے جس سے ساختی تبدیلیاں آئیں اور غریبوں کو غربت کے جال سے دور ہونے یا اس سے بچنے میں مدد ملے۔ایسے حالات میں چاہئے کہ پاکستان جیسے زرعی اور آب و ہوا سے متاثرہ ممالک میں قدرتی آفات کے لئے فصلوں کی انشورنس متعارف کرائی جائے۔ کاشتکاروں کو موسمیاتی آفات سے نمٹنے کے لئے موافقت کی تکنیک بھی سکھائی جانی چاہئے۔ کسانوں کے لئے انتہائی موسمی واقعات میں فصل اُگانے کے بہترین طریقوں کا مطالعہ اور رہنمائی کرنے کے لئے مزید تحقیقی منصوبے شروع کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ کسی آفت سے متاثرہ غریبوں کو ٹارگیٹڈ کیش ٹرانسفر اور سبسڈی سے بھی ان کی بنیادی ضروریات پوری کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

 حکومت کی طرف سے امدادی حکمت عملیوں میں یوٹیلیٹی بلوں پر ٹیکس میں چھوٹ اور اشیائے خوردونوش میں شامل بنیادی اشیاء پر چھوٹ دی جا سکتی ہے۔ سیلاب زدگان کی شناخت پاکستان جیسے معاشی طور پر متاثرہ ممالک کے لئے اہم چیلنج ہے۔ حکومت سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں رہنے والوں کو غربت سے بچانے کے لئے ان کے تعلیمی نقصانات کم کرنے کی منصوبہ بندی کر سکتی ہے۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں مفت ٹیلی تعلیم (فاصلاتی تعلیم) اور پورٹیبل کلاس رومز جیسے انتظامات اس مسئلے کو حل کرسکتے ہیں۔ نیز ہیلتھ انشورنس کی فراہمی اور صحت کی مفت خدمات تک رسائی بھی انہیں غربت کے جال میں پھنسنے سے بچا سکتی ہے۔ جن ممالک کی نشاندہی ماحولیاتی آلودگی پھیلانے والے ممالک کے طور پر کی گئی ہے وہ غریب ممالک کو قرض دیں۔ درآمدات و برآمدات میں آزادی دی جائے اور نقد امداد کی صورت معاوضہ ادا کر کے سیلاب سے پیدا صورتحال کو بڑی حد تک معمول پر لانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ظل ہما۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)