مالیاتی ایمرجنسی

اس وقت جن مشکلات کا سامنا ہے ان سے نکلنے کیلئے اگر جملہ سیاسی قیادت نے باہمی اختلافات سے قطع نظر موثر اقدامات پر اتفاق نہیں کیا تو پاکستان بہت جلد‘ مالیاتی ہنگامی حالت سے دوچار ہو جائے گا۔ایسے حالات میں کہ جب حکومت نے کئی طرح کے مثبت معاشی اقدامات کے ذریعے حالات کا رخ بدلنے کی کوشش کی ہے اور اس کے نتائج بھی سامنے آنے لگے ہیں پاکستانی روپیہ اب بھی تاریخ کے بدترین دباؤ سے گزر رہا ہے۔ اوپن مارکیٹ میں ڈالروں کی طلب زیادہ ہے۔ ہمیں پٹرول اور ڈیزل خریدنے کیلئے بیس ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ ہمیں گندم خریدنے کے لئے ایک ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ ہمیں کوکنگ آئل خریدنے کے لئے تین بلین ڈالر کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے پاور پلانٹس کو چلانے کے لئے کوئلہ خریدنا پڑتا ہے اور اِس خریداری کے لئے دو بلین ڈالر کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایل این جی خریدنے کے لئے تین ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔

 ہمیں کپاس خریدنے کے لئے دو بلین ڈالر کی ضرورت ہے۔ ہمیں مشینری کی درآمد کے لئے دس ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ یہ صورتحال ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کا تقاضا کر رہی ہے۔ اگر ہماری درآمدات کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو پاکستان جلد ہی‘ بہت جلد‘ مالیاتی ہنگامی صورتحال سے دوچار ہو جائے گا۔ہمیں اپنے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو پورا کرنے کے لئے سترہ ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ ہمیں قرض پر سود اور اقساط کی ادائیگی کیلئے سترہ ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ ہم پچاس ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ درپیش ہے۔ہنگامی صورتحال یہ ہے کہ اگر ہم اپنے طور طریقے تبدیل نہ کئے تو پاکستان جلد ہی‘ بہت جلد‘ مالیاتی ایمرجنسی کی حالت میں ہو گا۔ چاہے ہم اس بات کو پسند کریں یا نہ کریں لیکن مالیاتی ایمرجنسی ہماری طرف سرپٹ دوڑ رہی ہے۔

 چاہے ’مالی ایمرجنسی‘ کی حالت میں ہو یا اس سے پہلے ہمیں توانائی کے تحفظ‘ قومی مالیاتی ایوارڈ پر دوبارہ مذاکرات‘ حکومتی اخراجات میں کمی‘ آئی ایم ایف کی ریپڈ فنانس سہولت کے لئے جانا‘ روپے کی قدر میں کمی کو روکنے سمیت متعدد ہنگامی اقدامات کرنے ہوں گے۔ پاکستانی روپیہ میں پڑوسی ممالک کے ساتھ تجارت کا آغاز ہونا چاہئے۔جن میں ایران اور افغانستان قابل ذکر ہیں۔پڑوسی ممالک کے ساتھ تجارت کے ذریعے ہم نہ صرف موجودہ حالات سے کامیابی کے ساتھ نکل سکتے ہیں بلکہ مستقبل میں اس طرح کے مشکل حالات کا شکار ہونے سے بچ بھی سکتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ وفاقی اور صوبائی بجٹ کی ترجیحات پر نظرثانی ہونی چاہئے اور قرضوں میں ریلیف حاصل ہونے کی صورت اِس مہلت سے بہتر استفادہ ہونا چاہئے۔

اگر ہم قرضوں کو بہتر انداز میں استعمال کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ان قرضوں کی واپسی کاعمل بھی آسان ہوجائے گا اور ساتھ ہی اس سے استفادے کی صورت میں ہم معاشی استحکام سے بھی ہمکنار ہوں گے۔ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ عالمی بینک کے ریگولیٹری انڈیکیٹرز فار سسٹین ایبل انرجی (RISE) کی درجہ بندی میں پاکستان نے توانائی کی کارکردگی میں 100 میں سے اٹھائیس نمبر حاصل کئے ہیں۔ ہماری ’توانائی کی شدت‘ غیر معمولی طور پر زیادہ ہے (مطلب ہم ’جی ڈی پی‘ کی فی یونٹ پیدا کرنے کیلئے بہت زیادہ توانائی استعمال کرتے ہیں)۔ پاکستان سالانہ تقریباً ستر ملین ٹی او اِی استعمال کرتا ہے جس کی مالیت تقریباً پنتیس ارب ڈالر ہے۔

 ’مالی ایمرجنسی‘ کے تحت ہمیں تیل کی اِس کھپت کو تقریباً سات ارب ڈالر تک کم کرنا ہوگا۔اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہمیں کئی شعبوں میں کفایت شعاری پر عمل پیر ا ہونا ہوگا اور اپنے انتظامی اخراجات کو کم کرنا ہوگا۔روپے کے قدر میں کمی کا سیدھا سادا مطلب ’مہنگائی میں اضافہ‘ ہوتا ہے۔ روپے کے گرنے کا مطلب قوت خرید میں کمی بھی ہوتی ہے‘ روپے کے گرنے کا مطلب سرمائے کا اخراج ہے‘ روپے کی گراوٹ کو گرفت میں لانا چاہئے۔ ”مالیاتی ایمرجنسی“ کے تحت بینکوں کے ٹریژری ڈیپارٹمنٹس کو کنٹرول کرنا ہوگا اور درآمدات کی اوور انوائسنگ کو روکنا ہوگا۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)