اقتصادی اصلاحات اور قومی لائحہ عمل 


معیشت دولت اور مواقع پیدا کرنے اور تقسیم کرنے کا ایک طریقہ ہے اور اس کا لوگوں کی فلاح و بہبود سے گہرا تعلق ہے۔ تکنیکی ترقی نے دنیا کی پیداواری صلاحیت کو اس حد تک بڑھا دیا کہ اب دنیا میں کہیں بھی غربت اور بھوک کا ہونا ناقابل معافی ہے۔ بارہ دسمبر 1974ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد 3281 منظور کی جس میں ریاستوں کے معاشی حقوق اور فرائض کا چارٹر تھا لیکن یہ ایک خواہشات کی فہرست کی طرح تھا۔  کسی ملک کا ویژن ایک مساوی معاشرہ تشکیل دینا ہے تو اس کے اہداف آمدنی اور دولت کی عدم مساوات کم کرنا‘ غربت کا خاتمہ‘ معیار زندگی کی بلندی‘ انسانی ترقی کا فروغ‘ ظلم اور استحصال کا خاتمہ اور شہریوں کو بااختیار بنانا ہونا چاہئے۔ اس ایجنڈے کے چند اہم محرکات و نکات ہیں۔ صنعت:جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو وہ صنعت کاری کی دوڑ میں بہت پیچھے ہے۔ ماضی میں جہاں بھی صنعت کاری ہوئی‘ ابتدا میں ریاست کی براہ راست شمولیت کی وجہ سے ہوئی۔ پرائیویٹ سیکٹر بھی ریاست کے تعاون سے اُبھرا۔ پاکستان میں پرائیویٹ سیکٹر کے پاس وسائل کی کمی ہے۔ ریاست کو اس شعبے کے لئے آسانیاں پیدا کرنی ہیں۔ ہماری قومی برآمدات کا ساٹھ فیصد ٹیکسٹائل کے شعبہ سے آتا ہے‘ یہ برآمدات خاص طور پر امریکہ اور برطانیہ کو جاتی ہیں۔ برآمدات کو وسیع کرنے اور برآمدی مقامات کو متنوع بنانے کی ضرورت ہے۔زراعت: یہ پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا شعبہ ہے اور جی ڈی پی میں اکیس فیصد کی شراکت داری رکھتا ہے‘ جو ملک کی کل لیبر فورس کا پنتالیس فیصد بھی ہے۔ اس شعبے کو بہتر بنا کر آبادی کے ایک بڑے حصے کو ترقی دی جا سکتی ہے۔ پاکستان بزنس کونسل کے مطابق پاکستان میں کاشتکاری کے فرسودہ طریقوں پر عمل درآمد کی وجہ سے پانچ بنیادی فصلوں کی پیداوار عالمی بہترین پیداوار کا پچاس فیصد ہے۔ لائیوسٹاک اور ڈیری بڑی حد تک ناقص پیداوار کے ساتھ رزق کی بنیاد پر ہے۔ باغبانی پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ پانی کی کمی اور موسمیاتی تبدیلیاں پاکستان کے لئے چیلنجز ہیں۔ غذائی عدم تحفظ ایک بڑا مسئلہ ہے‘ جو سماجی بدامنی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ ٹیکنالوجی‘ تکنیک کو اپ گریڈ کرنے‘ پانی کے بنیادی ڈھانچے اور نئے بیجوں میں سرمایہ کاری کرنے اور اس شعبے میں تحقیق کو مضبوط کرنے کی اشد ضرورت ہے جس کی بہترین کارکردگی سے نہ صرف روزمرہ استعمال کی اشیاء تیار کرکے درآمدات کی طلب میں کمی لائی جا سکتی ہے بلکہ برآمدات میں بھی اضافہ ہوگا۔زمین: یہ کسی بھی ملک کا سٹریٹجک اثاثہ ہوتا ہے پاکستان میں زمین کے قیاس آرائیوں نے اِس کی قیمتوں کو اُس سطح تک پہنچا دیا ہے جہاں گھر کی ملکیت متوسط طبقے کے لئے خواب بن گیا ہے۔ مزدور طبقہ تو اپنا گھر ہونے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ نجی سرمایہ کار ٹیکنالوجی اور صنعت کی بجائے زمین میں سرمایہ کاری کو ترجیح دے رہے ہیں۔ مستقبل کی ضروریات کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے ایک جامع زمینی پالیسی تیار کرنے کی فوری ضرورت ہے۔انسانی ترقی: پاکستان کی دو تہائی سے زیادہ آبادی تیس سال سے کم عمر کی ہے۔ نوجوانوں کی اکثریت غیر تعلیم یافتہ‘ غیر ہنر مند اور بے روزگار ہے۔ اعلیٰ ڈگریوں کے حامل افراد کو بھی مناسب ملازمتیں حاصل کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ اِس خراب معیار کی ایک وجہ تعلیم کی کمی بھی ہے۔ پاکستان کی بیرون ملک مقیم افرادی قوت زیادہ تر غیرہنرمند ہے۔ تعلیمی نظام کو تنقیدی سوچ‘ کھلے ذہن اور موجود مسائل کا جواب دینے کی صلاحیت پر توجہ دینے کے ساتھ ایک مکمل تبدیلی کی ضرورت ہے۔ سالانہ بیس لاکھ نوجوانوں کے افرادی قوت میں داخل ہونے کے ساتھ‘ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کو ترجیح دینا ہوگی۔ تعلیم اور ملازمتوں میں صنفی برابری کے بغیر‘ معیشت کے کسی بھی چارٹر کی کوئی اہمیت نہیں۔ بے سمت‘ مایوس اور ناراض نوجوان تعمیروترقی کے شراکت دار بننے کی بجائے سماجی بدامنی کا باعث بن رہے ہیں۔ماحولیات: سال دوہزاراٹھارہ میں‘ گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس نے پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے طویل مدتی اثرات کے لئے پانچویں سب سے زیادہ کمزور ملک کے طور پر درجہ دیا۔ حالیہ سیلاب اس کا ثبوت ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی ایک عالمی مسئلہ ہے لیکن پاکستان کو دو وجودی خطرات کا سامنا ہے: پانی کی کمی اور جنگلات کی کٹائی۔ سب سے اہم شعبہ جسے نظر انداز کیا جا رہا ہے وہ عوامی تعلیم ہے تاکہ پانی کے تحفظ میں شہریوں کے کردار کے بارے میں آگاہی پیدا کی جا سکے۔ ہمیں نہری نظام کی اصلاح اور پانی کے ضیاع کو کم کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ چھوٹے ڈیم اور آبی ذخائر بنا کر بارش کے پانی کو محفوظ کرنا ہوگا اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے بڑے واٹر فلٹریشن پلانٹس لگانے کی ضرورت ہے۔ جنگلات کی کٹائی غربت کا نتیجہ ہے کیونکہ 69فیصد آبادی روزانہ توانائی کے ذرائع کے لئے لکڑی پر انحصار کرتی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے یہ صورتحال مزید بدتر ہو گئی ہے۔ٹیکس کا نظام: پاکستان کا رجعت پسند ٹیکس نظام شاید دنیا کے پیچیدہ ترین نظاموں میں سے ایک ہے۔ لوگوں پر بوجھ کم کرنے کے لئے بالواسطہ ٹیکسوں کا تناسب کم کرنا ہوگا۔ زرعی آمدنی پر ٹیکس کے مسئلے کو حل کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر اکرام الحق سمیت کئی معاشی و اقتصادی ماہرین نے ٹیکس نظام میں بہتری لانے کے لئے تجاویز پیش کی ہیں لیکن سیاسی قوت ارادی کی کمی کے باعث کچھ بھی نہیں بدلا۔بینکنگ سیکٹر: یہ جدید عالمی مالیاتی نظام کا ایک لازمی حصہ ہے۔ اندازوں کے مطابق غریب ممالک کی جانب سے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے لئے گئے ہر ایک ڈالر کے لئے پچیس ڈالر سود کی مد میں ادا کئے جاتے ہیں۔ لوگوں پر بینکنگ و سود کے منفی اثرات کم کرنے کے لئے پاکستان میں بینکاری نظام کی نگرانی کے لئے مضبوط قوانین کی ضرورت ہے۔ سرکاری اور نجی بینکوں بالخصوص کوآپریٹو بینکوں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے اُور بینکوں کی توجہ کمیونٹی کی ترقی پر ہونی چاہئے‘ زیادہ سے زیادہ منافع کمانے پر نہیں۔تحقیق اور ترقی: زندگی کے کسی بھی شعبے میں نئی مصنوعات‘ نئی ٹیکنالوجی‘ نئی تکنیک اور اختراع کا معیشت سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔اس سے پہلے کہ ہم قومی ”چارٹر آف اکانومی“ کا مسودہ (ترجیحات) تیار کریں‘ ہمیں حتمی اہداف کا فیصلہ کرنا چاہئے جو یہ طے کرے کہ ہم کس قسم کا معاشی نظام چاہتے ہیں۔ صرف اصلاحاتی لائحہ عمل اور دستاویزات کی تیاری ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ اِسے عملی جامہ پہنانے کے لئے سیاسی عزم کا ہونا بھی ضروری ہے اور پاکستان کا یہی بنیادی مسئلہ ہے کہ یہاں نیت اور ارادے عملی اقدامات اور کوششوں کے سانچے میں نہیں ڈھلتے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر شہناز خان۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)