برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوم نے اپنے جنازے اور آخری رسومات کی پہلے سے منصوبہ بندی کر رکھی تھی اور شاید اِس قسم کی منصوبہ بندی دنیا کے کسی دوسرے بادشاہ یا ملکہ نے نہ کی ہو۔ یہ بات بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ ملکہ الزبتھ دوم نے اپنی آخری رسومات میں عوام کی شرکت کے حوالے سے جس وقار اور نفاست کا تصور کیا تھا وہ بھی ہو بہو پورا ہوا ہے۔ملکہ کے تابوت کا گھر (بارمورل محل) سے نکلنے سے لے کر دس دن بعد دفن ہونے تک کوئی ایک لمحہ بھی ایسا نہیں تھا جب کیمروں کا رخ ملکہ کے تابوت یا ان کے غمزدہ خاندان کی جانب نہ رہا ہو۔ ملکہ الزبتھ دوم کی زندگی ذرائع ابلاغ کی نظروں میں رہتے ہوئے گزری۔ میڈیا کی یہ نظریں اس وقت تک ان کا پیچھا کرتی رہیں جب تک انہیں ان کے مدفن میں اتار نہیں دیا گیا۔ اپنے اقتدار کے ستر برس کے دوران ملکہ الزبتھ دوم نے بادشاہت کی شبیہہ کو درست کیا۔ اکثر لوگ لارڈ آلٹرنچم کی جانب سے ان پر کی گئی تنقید کو بھول چکے ہیں جنہوں نے ان کی تیز آواز پر تنقید کرتے ہوئے اسے ’پریشان کردینے والی آواز‘ قرار دیا تھا۔ ملکہ نے پھر اس کے لئے باقاعدہ تربیت حاصل کی تھی۔
کچھ لوگوں نے ان کے پھیکے رنگوں کے لباس پر تنقید کی تو انہوں نے شوخ رنگوں کے لباس اور اس سے ملتے ہوئے پھول دار ہیٹ کو اختیار کیا۔ یوں یہ بات یقینی بنائی گئی کہ وہ مجمع میں سب سے الگ نظر آئیں۔ وہ میڈیا کے ساتھ بھی مذاق کرتی رہیں کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اس کے بغیر وہ بھی ملکہ وکٹوریا کی طرح عوام سے دور ہوجائیں گی۔ عوام میں انہوں نے ہمیشہ درست بات ہی کی اور کبھی کوئی کوتاہی نہیں کی۔ انہوں نے اپنی ذاتی آرأ خود تک یا پھر اپنی روزانہ کی ڈائری تک محدود رکھیں۔ انہیں عوامی ذمہ داریوں کی انجام دہی کرتے ہوئے دیکھنے کا تجربہ (جو مجھے حاصل رہا) ایسا ہی تھا جیسے کسی تجربہ کار اداکارہ کو اپنے کردار کی تیاری کرتے ہوئے دیکھنا۔ وہ اس بریفنگ بک میں سے اپنا حصہ دیکھتیں جس میں ان کی روزانہ کی سرگرمیاں درج ہوتیں۔ اس کتاب میں یہ سب لکھا ہوتا کہ وہ کس سے‘ کب‘ کہاں اور کیوں ملاقات کریں گی۔
ہر آدھے گھنٹے کا پہلے سے حساب رکھا جاتا تھا اور ملکہ کی جانب سے منظوری دینے کے بعد اس پر من و عن عمل کیا جاتا تھا۔ ملکہ الزبتھ دوم اپنے شوہر شہزادہ فلپ کے ساتھ دو مرتبہ پاکستان آئیں۔ شہزادہ فلپ نسبتاً کھلے ڈلے مزاج کے لیکن یکساں ذمہ دار شخص تھے۔ 1961ء میں پاکستان میں ملکہ کے میزبان صدر جنرل ایوب خان تھے۔ وہ اپنے سے کم عمر شاہی مہمان کے ساتھ بہت ہی اچھے انداز سے پیش آئے۔ 1997ء کے دورے کے دوران اسلام آباد میں ملکہ کے میزبان صدرِ پاکستان فاروق لغاری تھے۔ کراچی میں نصف دن گزارنے کے بعد شاہی وفد لاہور آگیا۔ اس شام کا پروگرام بھی پہلے سے طے تھا جہاں ملکہ نے گاڑی کے ذریعے قلعہ جانا تھا‘ وہاں کے دیوان خاص میں کھانا تھا۔ اس کے بعد آتش بازی کا مظاہرہ ہونا تھا اور پھر گاڑی کے ذریعے ہی گورنر ہاؤس واپسی ہونی تھی۔
اُس وقت کے وزیرِاعظم نواز شریف نے اپنے شہر میں ملکہ کی میزبانی کرنے کا فیصلہ کیا چونکہ صدر فاروق لغاری ملکہ کے ساتھ ریاستی بگھی میں پارلیمنٹ ہاؤس تک گئے تھے اس وجہ سے نواز شریف نے بھی اس عمل کو دہرانے کا فیصلہ کیا اور راتوں رات راولپنڈی سے ٹرین کے ذریعے گھوڑے اور بگھی منگوائے گئے۔ فوری طور پر ملکہ کے وفد کو بھی اطلاع دی گئی کہ اب ملکہ گاڑی کے ذریعے قلعے تک آئیں گی جہاں وہ مصور دیوار والے دروازے پر گاڑی سے اتر کر وزیرِاعظم نواز شریف کے ساتھ بگھی میں بیٹھ کر دیوان عام تک جائیں گی۔ وہ راستہ اونچائی کی جانب تھا۔ یہ تجاویز تو دی گئیں کہ اس سڑک پر گھوڑوں کے پھسلنے کا خطرہ ہوسکتا ہے یا یہ کہ اینٹوں سے بنے اس تاریک راستے میں ملکہ کو دیکھنے کے لئے کوئی نہیں ہوگا لیکن وزیرِاعظم کے دفتر نے ان تجاویز کو نظرانداز کردیا۔
یوں ایک جلوس کی صورت میں سفر شروع ہوا جو خوش قسمتی سے بغیر کسی حادثے کے پورا ہوا۔ دیوان عام میں مہمان اور میزبان بگھی سے اترے اور پھر انہوں نے دیوان خاص کی جانب چلنا شروع کیا۔ پھر وہی ہوا کہ وزیرِاعظم کچھ اور ہی چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ تقریباً 200 خصوصی مہمان شاہی مہمانوں کو دیوان عام میں خوش آمدید کہیں اور پھر ان کے ساتھ دیوان خاص میں کھانے کے مقام تک چلیں۔ میں نے اس کے نتیجے کا اندازہ پہلے ہی لگالیا تھا۔ ملکہ ایک خالی احاطے میں داخل ہوئیں جہاں صرف دو افراد یعنی میری اہلیہ اور میں ہی موجود تھے۔ اس دوران وزیرِاعظم نے آہستہ سے اردو میں کہا کہ ’تالیاں بجائیے۔
جب تمام لوگ مغلوں کے بنائے ہوئے سنگِ مرمر کے پویلین میں نیم دائرے کی صورت میں لگی نشستوں پر اپنی جگہ لے چکے تو دونوں ممالک کے قومی ترانے بجائے گئے۔ میں ملکہ کا ردِعمل دیکھ رہا تھا۔ وہ بالکل بے تاثر چہرے کے ساتھ کھڑی تھیں لیکن میں دیکھ رہا تھا کہ وہ ہر کچھ دیر بعد اپنے انگوٹھے سے اپنی انگلی کو رگڑتیں۔ جب قومی ترانوں کے بعد کھانا لگایا گیا تو شاہی مہمانوں کی میز پر تو ویٹر موجود تھے لیکن باقی مہمانوں کے لئے ویسے ہی بوفے کا انتظام تھا جیسا شادی کی تقریبات میں ہوتا ہے۔میں نے ملکہ کی دو معاونین کے لئے کرسیاں سنبھال کر رکھیں۔ جب وہ اپنی نشستیں سنبھال چکیں تو میں نے ان میں سے ایک سے پوچھا کہ ’جب ملکہ ناراض ہوتی ہیں تو کیا وہ اپنے انگوٹھے کو انگلی کے ساتھ رگڑتی ہیں؟‘ انہوں نے جواباً سوال کیا کہ ’آپ کو کیسے پتا چلا؟‘ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ایف ایس اعجاز الدین۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)