پاکستان کی برآمدات بڑھانے کے لئے واحد اور سب سے بڑا ’چیلنج‘ یہ ہے کہ عالمی منڈی اور مانگ کے مطابق پیداوار بڑھائی جائے اور اِس مقصد کے لئے ’جدید ٹیکنالوجی (ہائی ٹیک)‘ کے شعبوں میں صنعتیں قائم کرنا ہوں گی تاکہ اعلیٰ معیار کی ”ویلیو ایڈڈ“مصنوعات تیار اور برآمد کی جا سکیں۔ اس سلسلے میں چین سے سبق سیکھا جا سکتا ہے جس نے عالمی منڈی کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی ہائی ٹیک برآمدات میں اضافہ کیا۔ چین میں سال 1978ء کے دوران اقتصادی اصلاحات کے عمل کے آغاز ہوا اور اِس کے لئے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (فارن ڈائریکٹ انوسٹمنٹ FDI) سے ناممکن کو ممکن کر دکھایا گیا۔ چین نے اعلیٰ ٹیکنالوجی (ہائی ویلیو ایڈڈ) مصنوعات کی تیاری اور برآمدات پر توجہ مرکوز کی۔ اس کے نتیجے میں 1979ء سے 2004ء کے دوران اِس کی سالانہ اقتصادی شرح نمو اوسطاً نو فیصد تک جا پہنچی‘ جس نے اس قوم کو ایک معاشی طاقت میں بدل دیا۔
اقتصادی ترقی کا یہ وہ مقام ہے جہاں پاکستان بھی اپنے آپ کو دیکھنا چاہتا ہے لیکن اب تک کی کوششوں میں اِسے خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ یکے بعد دیگرے حکومتوں کے منصوبہ سازوں نے ’ہائی ٹیک برآمدات‘ کا ادراک نہیں کیا‘ وہ دن گئے جب کم ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل مصنوعات ہماری سماجی و اقتصادی ترقی میں حصہ ڈال رہی تھیں۔ اب زمانہ اور ضرورتیں بدل گئی ہیں۔ پاکستان کی کل برآمدات کا تقریباً ساٹھ فیصد کم ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل کے شعبے سے آتا ہے۔ ہمیں انجینئرنگ کے سامان‘ آٹوموبائلز‘ الیکٹرانکس‘ کمپیوٹرز‘ جدید ترین سافٹ وئرز‘ مصنوعی ذہانت پر مبنی مصنوعات‘ کیمیکلز‘ دواسازی‘ ویکسین‘ بائیو ٹیکنالوجی کا سامان‘ نینو ٹیکنالوجی کا مواد‘ پراسیس شدہ معدنیات‘ جواہرات اور زیورات کی تیاری اور برآمد کی طرف بڑھنا چاہئے۔ چین نے اپنی بڑی مارکیٹ‘ بہترین تربیت یافتہ افرادی قوت اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے تکنیکی انفراسٹرکچر کو اپ گریڈ کیا۔ اعلیٰ ٹیکنالوجی کے سازوسامان کی مینوفیکچرنگ پلانٹس لگائے اور مزید غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کیا۔
ہائی ٹیک صنعتوں کی ترقی کے لئے چین بھر میں سائنس پارکس کی ایک بڑی تعداد قائم کی گئی۔ جس نے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں ذہین طلبہ کو بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے لئے بھیجا اور اس طرح سائنس اور انجینئرنگ کے ہر شعبے میں اعلیٰ تربیت یافتہ ’ورک فورس‘ تیار کی گئی۔ مثال کے طور پر گزشتہ سال چین کی طرف سے تقریباً چھ لاکھ طلبہ کو پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹریٹ کی تربیت کے لئے امریکہ اور یورپ کی اعلیٰ لیبارٹریوں میں بھیجا گیا تھا اور تقریباً پانچ لاکھ طلبہ اس طرح کی تربیت کے بعد گزشتہ سال چین واپس آئے۔ چین کے تعلیمی اداروں اور صنعت میں نصف ملین تربیت یافتہ پیشہ ور افراد کا اضافہ‘ جدت پر مبنی صنعت کے تقریباً ہر شعبے میں چین کی تقریباً ناقابل یقین تبدیلی کا باعث بنا ہے۔ چین کے پاس آج امریکہ سے کہیں زیادہ پیٹنٹ ہیں۔ 2021ء میں‘ چین لگاتار تیسرے سال پیٹنٹ کا سب سے بڑا بین الاقوامی فائلر تھا۔ مثال کے طور پر‘ مصنوعی ذہانت کے اہم اور تیزی سے ابھرتے ہوئے شعبے میں‘ چینی فرموں کے پاس دنیا کے 75فیصد بین الاقوامی پیٹنٹ ہیں۔
اسی طرح 6-G ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی چین کے پاس امریکہ سے زیادہ پیٹنٹ ہیں۔ چین کی اس کوشش میں ایک اہم سنگ میل 1985ء میں ’کمیونسٹ پارٹی‘ کی سنٹرل کمیٹی کا فیصلہ تھا جو سائنس اور ٹیکنالوجی کے انتظامی نظام میں اصلاحات کا موجب بنا۔ اعلی ٹیکنالوجی کے سامان کی تیاری اور برآمد میں کاروباری اداروں کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا جو اس طرح کی ٹیکنالوجیز کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہے تھے۔ منصوبے میں ٹیکنالوجی اور تکنیکی بنیادی ڈھانچے میں معیشت کی کمزوریوں کی نشاندہی کی گئی۔ اس کے نتیجے میں‘ اقتصادی سرگرمیوں کے تین بڑے شعبوں کی نشاندہی کی گئی: پہلا تعلیم اور سائنس؛ دوسرا توانائی اور نقل و حمل اور تیسرا زراعت۔ پاکستان کو بھی اِنہی تین شعبوں پر توجہ دینی چاہئے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کو تجارتی سرگرمیوں سے منسلک کرتے ہوئے اسی مناسبت سے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کو مرکزی منصوبہ بندی کا حصہ بنایا گیا جس سے مارکیٹ میں چلنے والے نظام میں تبدیلی کا عمل شروع ہوا اور نجی اداروں کی جانب سے سائنسدانوں کو مراعات فراہم کرنے پر آمادہ کیا گیا تاکہ وہ ایسی مصنوعات کی ترقی پر کام کریں جس سے چین کی ہائی ٹیک برآمدات میں اضافہ ہو۔
ایک سوچی سمجھی پالیسی کے تحت چینی سائنسدانوں اور انجینئروں کو عوامی شعبے کے تحقیقی ادارے چھوڑ کر اپنے تجارتی ادارے شروع کرنے کی ترغیب دی گئی۔ اس سلسلے میں 1988ء میں شروع کیا گیا ”ٹارچ پروگرام“ گیم چینجر ثابت ہوا کیونکہ اس نے غیر سرکاری اداروں کو لبرل فنڈنگ فراہم کی۔ اس نے نجی کمپنیوں اور سائنس پارکوں کے درمیان روابط کو مضبوط بنانے میں بھی مدد کی۔ اس پروگرام نے اقتصادی اور تکنیکی ترقی کے زونز اور ہائی ٹیکنالوجی انڈسٹریل ڈویلپمنٹ زونز کے قیام میں مدد کی۔1990ء کی دہائی کے وسط تک‘ پاکستان کی طرح چین کم اور درمیانی ٹیکنالوجی تک محدود تھا اور اعلیٰ ٹیکنالوجی کے شعبوں میں بہت کم صلاحیت رکھتا تھا۔ 1995ء میں‘ ٹیکنالوجی پر مبنی صنعتوں کو فروغ دینے کے لئے مزید دو اہم فیصلے کئے گئے۔ ان میں سے پہلا 1995ء کا ’سائنسی اور تکنیکی ترقی کو تیز کرنے کا فیصلہ‘ تھا اور دوسرا سال 1999ء میں ’جدت کو مضبوط بنانے اور اعلیٰ ٹیکنالوجی کی ترقی و صنعت کاری کا احساس‘ تھا۔ 1995ء کا فیصلہ تعلیم کے ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی کے معیار کو بلند کرنے کے حوالے سے سفارشات کے نفاذ پر مرکوز تھا۔
اس نے ”دیسی ٹیکنالوجی کی صلاحیت“ کو بہتر بنانے پر بھی توجہ مرکوز کی۔ 1999ء میں ریاستی کونسل کے ایک اور فیصلے میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ میں سرمایہ کاری کرنے والے نجی اداروں کے لئے ٹیکس کٹوتیوں کی منظوری دی گئی۔ نئی ٹیکنالوجیز کے تجارتی استعمال سے حاصل ہونے والی تمام آمدنی کو مکمل ٹیکس چھوٹ دی گئی۔ چین میں تیار کردہ اور تیار کردہ سافٹ وئر مصنوعات پر چھ فیصد سے کم ویلیو ایڈیڈ ٹیکس کی منظوری دی گئی۔ ہائی ٹیک برآمدات کو ویلیو ایڈیڈ ٹیکس کی مکمل چھوٹ دی گئی اور انہیں سبسڈی والے کریڈٹ کی پیشکش کی گئی۔ ہائی ٹیک مصنوعات کی تیاری میں شامل کمپنیوں کو ترجیحی طور پر شنگھائی اور شینزین اسٹاک ایکسچینج کا رکن بنایا گیا اور ایسے دیگر اصلاحاتی اقدامات کے نتیجے میں ہائی ٹیک مصنوعات کی برآ مدات تیزی سے اضافہ ہوا جو سال 1997ء میں 16.3 ارب ڈالر سے بڑھ کر 2004ء میں 165.4 ارب ڈالر تک جا پہنچیں۔ پاکستان کو بھی چین کے راستے پر چلنے کی ضرورت ہے۔ ہماری ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پالیسی کو مقامی ٹیکنالوجی کی ترقی کو فروغ دے کر‘ انٹرپرائز پر مبنی ٹیکنالوجی کی جدت طرازی اور کمپنیوں کی اختراعی صلاحیتوں کو فروغ دے کر معاشی ترقی کے لئے لائحہ عمل بنانا چاہئے اور قومی توجہ تکنیکی ترقی پر ہونی چاہئے جس کے لئے چند منتخب کلیدی اہداف بنا کر سٹریٹجک شعبوں میں سرمایہ کاری کی جانی چاہئے۔ (مضمون نگار سابق وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بانی و سابق بانی چیئرمین ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)