جنگجوانہ سفارتکاری

امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پیلوسی نے حالیہ مہینوں میں ایک کے بعد ایک ہاٹ سپاٹس کیف‘ تائی پے اور اب یریوان کا دورہ کیا۔ سوال ہے کہ آخر اُنہوں نے یہ سفری سلسلہ کیوں شروع کیا ہے؟ اس کے انتہائی متنازعہ سفارتی سفروں میں اچانک اضافے کے پیچھے واحد قابلِ فہم جواب نومبر میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات ہو سکتے ہیں۔ ذاتی طور پر اِس ”جیٹ ڈپلومیسی“ کے ذریعے لائم لائٹ میں رہ کر‘ وہ ایک مضبوط اور فعال سیاست دان کے طور پر سامنے آنا چاہتی ہیں تاکہ فلوریڈا کے حلقے میں اپنے ووٹروں کو راغب کر سکیں جبکہ وہ بالواسطہ طور پر اپنی سیاسی ساکھ اور درجہ بندی بڑھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ امریکہ کی سیاست میں ڈیموکریٹس کے عقابی چہرے کے طور پر نمودار ہو کر‘ وہ صدر جو بائیڈن کے لئے وسط مدتی انتخابات میں آنے والے شکست کے امکانات دور کرنے کے لئے مدد گار کے طور پر کام کر رہی ہیں۔

 نینسی پیلوسی کو اِس وقت 2 طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے: ایک تو وہ اِس لئے جدوجہد کر رہی ہیں کہ اپنے آبائی حلقے کی سیٹ کیسے بچائی جائے اور دوسرا وہ ڈیموکریٹس میں بڑھتے ہوئے عدم اطمینان کے پیش نظر سپیکر شپ کو برقرار رکھنے کے لئے جدوجہد کر رہی ہیں۔ نومبر میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات میں امریکی ایوان نمائندگان کی تمام 435نشستوں اور سینیٹ کی 100 میں سے 35 نشستوں پر مقابلہ ہوگا۔ اپنے سیاسی کیریئر کی گزشتہ دو دہائیوں میں پہلی بار‘ پیلوسی کو اس قسم کی مخمصے کا سامنا ہے۔ فلوریڈا کے حلقے میں انہیں سخت مقابلہ متوقع ہے اور ساتھ ہی ایوان کے اسپیکر کے طور پر اپنے عہدے کو برقرار رکھنے کے سوال پر ڈیموکریٹس کے درمیان واضح تقسیم کا بھی حصہ ہے جس کی وجہ سے اُن کا سیاسی کیریئر داؤ پر لگا ہوا ہے۔

 ہاؤس ڈیموکریٹس کے حالیہ سروے بتاتے ہیں کہ ایک طرح کا اتفاق رائے پیدا ہو رہا ہے کہ اگر وہ اکثریت کھو دیتے ہیں‘ تو پیلوسی پر غیر معمولی دباؤ پڑے گا‘ جس کا پیلوسی کو بخوبی معلوم ہے لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے اراکین کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے اس بات پر بھی غور کرنا شروع کر دیا ہے کہ اگر وہ ایوان کا کنٹرول برقرار رکھتے ہیں‘ تو اِس سے پیلوسی کو اقتدار میں رہنے کا زیادہ وقت ملے گا۔ اس کے باوجود ڈیموکریٹس اس امکان کے بارے میں بظاہر منقسم ہیں اور نتائج سے قطع نظر نئی قیادت کے لئے بے چین ہیں چاہے وہ سپیکر شپ کو برقرار رکھنے کے لئے سب سے زیادہ پسندیدہ ہی کیوں نہ ہو۔سال دوہزار اٹھارہ میں‘ پیلوسی نے‘ کسی بھی قسم کے تحریری معاہدے کے بغیر‘ ناراض ہاؤس ڈیموکریٹس کے ساتھ‘ سپیکر کے طور پر اپنی مدت کو مزید چار سال تک محدود کرنے پر اتفاق کیا۔

 تاہم متعدد اراکین‘ اپنی انفرادی حیثیت میں‘ الگ رائے رکھتے ہیں کہ اگر مڈٹرم ڈیموکریٹک پارٹی کے لئے ٹھیک رہے تو‘ اس کی فنڈ ریزنگ کی مہارتوں اور خواتین ووٹرز کی توجہ دونوں حاصل رہے گی۔ انہیں اپنے عہدے کی مدت میں توسیع پر نظر ثانی  کرنا چاہئے جبکہ ڈیموکریٹس کی اکثریت کا خیال ہے کہ ایوان میں اکثریت برقرار رکھنے کی صورت میں‘ پیلوسی کے لئے یہ مناسب ہو گا کہ وہ اسے ایک انتہائی مثبت طریقے سے ختم کریں اور عہدے سے الگ ہو جائیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چھ سال قبل پیلوسی نے ہیلری کلنٹن کی صدارت جیتنے کی صورت میں استعفیٰ دینے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ حیرت کی بات نہیں کہ ڈیموکریٹس کی اکثریت ہر سطح پر ”قیادت کی تبدیلی“ دیکھنے کی خواہشمند ہے لیکن ہاؤس ڈیموکریٹس کے عمر رسیدہ رہنما خاص طور پر بیک بینچرز کے درمیان پرانی قیادت کے خلاف اِس ’ابھرتی ہوئی بغاوت‘ سے بالکل غافل دکھائی دیتے ہیں اور وہ اب بھی پیلوسی کی جگہ لینے کے اپنے عزائم کا اظہار کر رہے ہیں۔

 درحقیقت ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر مجموعی طور پر پارٹی کی تلاش جاری ہے اور اس کا اثر ہاؤس ڈیموکریٹس پر بھی پڑ رہا ہے۔ اس کے بعد بھی‘ اکثریتی رہنما سٹینی ہوئر اور میجرٹی وہپ جم کلائی برن‘ جانشینی کے لئے آمادگی کا اظہار کر چکے ہیں لیکن ایوان کے اندر انہیں زیادہ ہم خیال کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی تمام پرتوں میں ایک نئی قیادت کی خواہش زور پکڑ رہی ہے اور شاید یہی چیز پیلوسی کو اپنے سیاسی کیریئر کے دفاع پر مجبور کر رہی ہے۔ اس کے پاس نوجوان ووٹروں کو دینے کے لئے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اسی لئے اگرچہ پیلوسی خود مانتی ہیں کہ یہ اُن کے اقتدار کی آخری دوڑ ہے اور اس نے دروازہ مکمل طور پر بند نہیں کیا ہے کیونکہ وہ ایک لنگڑی بطخ کی طرح نظر نہیں آنا چاہتی اور چاہتی ہے کہ اپنے عہدے کے دفاع کے لئے بڑی رقم (چندہ) اکٹھا کرنے کے لئے ملک بھر کا سفر کریں۔

 امریکی ایوان کے اسپیکر کو آرمینیا آذربائیجان تنازعہ جیسے انتہائی حساس فلیش پوائنٹس کا بھی سامنا ہے جس پر اپنے ”ذاتی“ تعصبات کا اظہار کرنے کی اجازت دے کر‘صدر بائیڈن بہت سے خطرات مول لے رہے ہیں حیرت کی بات نہیں کہ پیلوسی‘ جو اضطراری طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے تیز بیانات کی نقل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں‘ نے آرمینیا کی صورت حال اور یوکرین و تائیوان کے درمیان مماثلتیں پائی ہیں اور اس تنازع کو ظلم اور جبر کے خلاف عالمی جدوجہد کے طور پر پیش کیا ہے درحقیقت وہ ایسا کرتے ہوئے لفظی طور پر آگ سے کھیل رہی ہیں! پیلوسی اور بائیڈن دونوں کو کافی حد تک یقین ہے کہ اس قسم کی جنگجوانہ سفارتکاری انہیں وسط مدتی انتخابات بچانے میں مدد دے گی لیکن جس چیز کا انہیں ادراک نہیں وہ یہ ہے اس طرح کی مجبوریوں کے منفی مضمرات و اثرات اور طویل المدتی نتائج امریکہ کی پوزیشن پر بھی پڑتے ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عمران خالد۔ ترجمہ ابوالحسن امام)