کیلیفورنیا : بعض افراد زندگی میں تخلیقی فکر سے مالامال ہوتے ہیں اور کچھ افراد میں یہ صلاحیت کم ہوتی ہے۔ تاہم اب عام افراد بھی مشق کی بدولت اپنی تخلیقی فکر بڑھا سکتے ہیں۔ ایک مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ تخلیقی عمل کسی کی میراث نہیں بلکہ اس کے لیے سوچ کے رخ کو بدلنے سے بھی وہی مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ بالخصوص شدید جذباتی کیفیت میں مائنڈ سیٹ بدل کر تخلیقی امور انجام دیئے جا سکتے ہیں۔ یعنی اگر آپ کسی نفسیاتی یا جذباتی صورتحال کے شکار ہوں تو اسے مختلف انداز میں دیکھنے سے نئی راہیں پھوٹتی ہیں۔ یوں دھیرے دھیرے روایتی فکر سے ہٹ کر معاملات کو دیکھنے کی راہ نکلتی ہے۔
جرنل آف آرگنائزیشنل بہیویئر اینڈ ہیومن ڈسیشن پروسیسس میں شائع تجرباتی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ تخلیق عمل کی تربیت ہرشخص حاصل کرسکتا ہے۔ یعنی ’جب ہم اپنے موجودہ نقطہ نظر سے ہٹ کر سوچتے ہیں، یعنی ابتدائی ردِ عمل کی بجائے مختلف برتاؤ کرتے ہیں تو اس میں تخلیقی عنصر جنم لیتا ہے۔ اس کی مسلسل مشق ہماری سوچ کو لچکدار بناتی ہے اور یوں ہم کنویں سے باہر بھی دیکھ سکتے ہیں۔
اس ضمن میں جامعہ کیلفیورنیا کی پروفیسر لِلی زو، اور دیگر ساتھیوں نے رضاکاروں کے تین مختلف گروہوں کو دو یکساں تجربات سے گزارا اور ان کا سروے بھی کیا۔ پہلا سروے کالج کے 279 طلباوطالبات پر کیا گیا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ ایموشنل ری اپریزل پر زور دیتے ہوئے نئے خیالات کے متعلق دل و دماغ کھلےرکھتے ہیں وہ زیادہ تخلیقی ہوتے ہیں۔
دوسرے تجربے میں 335 افراد کو بھرتی کیا گیا۔ سب سے پہلے ان میں کشادہ قلبی اور وسیع نظری کی درجہ بندی (رینکنگ) کی گئی۔ پھر انہیں ایک ایسی فلم دکھائی گئی جو کسی کو بھی غصے اور اشتعال میں مبتلا کرسکتی تھی۔ فلم کے دوران انہیں ہدایات بھی دی گئیں کہ وہ ایموشنل اپریزل استعمال کریں اور جب جب طیش آئے تو توجہ ہٹائیں، اور اس منظر کو مختلف انداز میں دیکھیں۔ تاہم ایک گروہ نے جذبات قابو کرنے والی ہدایات کو نظر انداز کردیا۔
فلم کے بعد شرکا سے کہا گیا کہ وہ بلڈنگ میں خالی جگہ کا بہترین استعمال بتائیں جو کیفے ٹیریا بند کرنے سے بنی ہے۔ رضاکاروں نے اپنی رائے دی جو ماہرین کے ایک ایسے پینل کے سامنے رکھی گئی جو اس پورے تجربے سے ناواقف تھے۔ بعض مشورے بہت زبردست تھے جن میں کہا گیا کہ قیلولے کے بند کمرے بنائے جائیں یا بچوں کے کھیلنے کی جگہ رکھی جائے۔ انہیں تخلیقی نمبر دییئے گئے۔
اگلے تجربے میں 177 افراد سے کہا گیا کہ وہ فلم دیکھنے کی بجائے ایک ایسا تجربہ بیان کریں جو انہیں غصے میں لا سکتا ہے۔ ان سے کہا گیا کہ وہ یہ صورتحال کسی دوسرے زاویئے سے لکھیں یا پھر نظرانداز کرکے کوئی تخلیقی جواب دیں۔
ان دونوں تجربات میں وہ افراد تخلیقی ثابت ہوئے جو وسیع النظر تھے اور ایموشنل ری اپریزل پر قادر تھے۔ جبکہ روایتی انداز میں سوچنے والوں نے صرف جذبات کو دبایا اور ان میں فرار کی راہ دیکھی گئی جو تخلیقی عمل ہرگز نہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ کامیاب اور تخلیقی انسان ایموشنل ری اپریزل کی مسلسل مشق کرتے ہیں اور مشکل میں بھی سہولت نکال لیتے ہیں۔