راولپنڈی:کمانڈ یا کمان کی چھڑی نئے آرمی چیف کے منصب سنبھالنے کی تقریب میں ہی مرکزی اہمیت نہیں رکھتی بلکہ اس کی ایک مکمل تاریخ ہے۔
ملاکا اسٹک کو کمانڈ اسٹک بھی کہا جاتا ہے، آرمی کمان کی یہ چھڑی انگریزوں کے دور سے فوجی روایت کا حصہ چلی آرہی ہے۔
ملاکا اسٹک ون اسٹار یعنی بریگیڈیئر کے عہدے کے افسران کو سونپی جاتی ہے، پرانا افسر اپنی چھڑی نئے افسر کو سونپ کر خود ترقی کی سیڑھی چڑھتا اگلے عہدے پر چلا جاتا ہے اور اس عہدے پر موجود افسر سے چھڑی وصول کرلیتا ہے۔
یہ سلسلہ فور اسٹار جنرل اور پھر آرمی چیف تک جا کر ختم ہوتا ہے۔کمانڈ کی چھڑی کوملاکا کین بھی کہا جاتا ہے، اسے سنگاپور کے جزیرے ملاکا سے حاصل ہونے والے مخصوص بانس رتن پام سے تیار کیا جاتا ہے۔
رتن کے درخت لمبے، پتلے اور تنے ہوئے ہوتے ہیں، جو واکنگ ملاکا اسٹکس بنانے کیلئے بہترین سمجھے جاتے ہیں، اس چھڑی میں دو دو انچ کے فاصلے پر گانٹھ ہوتی ہے، جو دیکھنے میں بانس کی لکڑی کی طرح ہی دکھائی دیتی ہے لیکن اس کے مقابلے خاصی پتلی ہوتی ہے۔
وزن میں ہلکی ہونے کے باوجود یہ چھڑی بہت مضبوط ہوتی ہے، اس کے کوئی دو نمونے ایک جیسے نہیں پائے جاتے۔دنیا بھرکی افواج کے سربراہان اسے کمان اسٹک کے طور پر زیرِ بازو اورکبھی ہاتھ میں اپنی میعاد کے دوران رکھتے ہیں، اس کی قیمت10ہزار پاکستانی روپے سے زائد بتائی جاتی ہے۔
ملاکا کی چھڑی سری لنکا، ہندوستان، برطانیہ سمیت کئی ممالک میں اہم فوجی عہدے داروں کی وردیوں کا حصہ ہے۔پاک فوج کی روایات کے مطابق قومی پرچم کو سلامتی دینے، گارڈ آف آنر کی وصولی اور پریڈ ملاحظہ کرتے ہوئے آرمی کمانڈ لازما چھڑی اٹھاتے ہیں جبکہ صدر، وزیراعظم یا کسی اور بڑی شخصیت سے ملاقات کیوقت یہ چھڑی آرمی چیف کے ساتھ نہیں ہوتی۔
ملاکا کین اسٹک محض فوج میں کمانڈ کی علامت ہے لیکن چھڑی ٹوٹ جانے کی صورت میں فوجی سربراہ کے اختیارات پرکوئی اثر مرتب نہیں ہوتا کیونکہ اصل اہمیت اسٹک کی نہیں بلکہ عہدے او راس سے منسلک ذمے داریوں کی ہے۔